16 اپریل ، 2018
کراچی: واٹر کمیشن کے سربراہ نے شہر میں پانی کےبحران پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایم ڈی واٹر بورڈ کی سرزنش کی۔
سندھ ہائیکورٹ میں کراچی میں پانی کے بحران پر واٹر کمیشن نے سماعت کی جس دوران کمیشن کےسربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے واٹر بورڈ کے وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں کیا ہورہا ہےکراچی میں؟کہاں گیاپانی؟ بلائیں ایم ڈی واٹر بورڈ کو، کہاں ہیں وہ ؟ اگر ایم ڈی واٹربورڈ مصروف ہیں تو دوسرے افسران کہاں ہیں؟
واٹر کمیشن نے ایم ڈی واٹربورڈ خالد شیخ کو فوری طلب کیا جس پر وہ کمیشن کے روبرو پیش ہوئے۔
کمیشن نے ایم ڈی سے مکالمہ کیا کہ آپ اخبار پڑھتے ہیں؟آپ کوگالیاں پڑرہی ہیں،آپ جانتےہیں؟ ہائیڈرینٹ کے پڑوس میں بھی پانی نہیں مل رہا، لوگ فجر سے لائن لگالیتے ہیں مگر پانی نہیں مل رہا۔
کمیشن کے سوال پر ایم ڈی نے کہا کہ شکر ادا کریں جنہیں پانی مل رہا ہے، اس پر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں لوگوں کو پانی دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ اب فون اور ایس ایم ایس سروس سےبھی ٹینکر بھجوادیتے ہیں۔
واٹر کمیشن نے سوال کیا کہ گھروں کے نل میں پانی کیوں نہیں مل رہا؟ آپ نے ترسیل اور تقسیم کا نظام تباہ کردیا ہے۔
ایم ڈی خالد شیخ نے کمیشن کو بتایا کہ پانی کی قلت سےکچھ مسائل ہیں، لوگوں کی پریشانی کااحساس ہے، کے الیکٹرک کی وجہ سے بھی مسائل ہیں بجلی کم مل رہی ہے، واٹر کمیشن نے کہا کہ آپ کو گالیاں پڑ رہی ہیں کچھ تو خیال کریں۔
اس موقع پر کراچی میں کچرا اٹھانے والی چینی کمپنی کی ادائیگی روکنے سے متعلق بھی سماعت ہوئی۔
سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے کمیشن کو بتایا کہ چینی کمپنی کاجنوری اور فروری کابل بھی واجب الادا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ ہم نے سابقہ بل روکنے کا حکم نہیں دیا صرف آئندہ کیلئے یہ حکم تھا، جو متنازع رقم ہے وہ تصدیق کے بعد ادا کریں۔
ٹاسک فورس کے رکن آصف شاہ نے کمیشن کو بتایا کہ ملازمین کی کم تعدادکی وجہ سےبھی جگہ جگہ کچرا نظر آرہا ہے۔
اس پر کمیشن نے ایم ڈی چینی کمپنی سے کہا کہ ایک سال میں چینی کمپنی نےملازمین کی تعداد مکمل نہیں کی، یہ تباہی اس لیے ہورہی ہےکہ آپ کے پاس ملازمین کم ہیں، یہاں بیٹھ کر چین سے نئی چیزیں لارہے ہیں پہلے ملازمین مکمل کریں۔
کمیشن نے چینی کمپنی کی واجب الادارقم سے طے شدہ تعداد سےکم ملازمین رکھنے پر رقم کٹوتی کاحکم دیا۔
کمیشن نے ڈی ایم سیز کے غیرحاضر ملازمین کی تنخواہیں روکنے کا حکم دیا اور غیر حاضرملازمین کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی بھی ہدایت کی۔