Time 19 اپریل ، 2018
کھیل

اگر میں کپتان ہوتا تو فواد عالم ٹیسٹ ٹیم میں شامل ہوتا، یونس خان

افسوس کی بات ہے کہ مسلسل کارکردگی دکھانے والے فواد عالم کو موقع نہیں مل رہا، سابق کپتان— فوٹو: فائل

ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے کامیاب ترین بیٹسمین یونس خان کا کہنا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ مسلسل کارکردگی دکھانے والے فواد عالم کو موقع نہیں مل رہا، اگر وہ کپتان ہوتے تو فواد عالم ٹیم میں شامل ہوتے۔

سابق ٹیسٹ کپتان کہتے ہیں کہ فواد عالم اس معاملے میں بڑے بدقسمت ہیں کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے کے باوجود انہیں موقع نہیں دیا جارہا۔

یونس خان کا کہنا ہے کہ 2016ء میں جب مصباح الحق کی قیادت میں ہم انگلینڈ گئے تو تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجود سیریز کے نتائج کو اپنے حق میں نہیں کر سکے تھے،اس ٹیم کے برعکس سرفراز احمد کی قیادت میں اعلان کردہ 16 ارکان پرمشتمل ٹیم زیادہ تر نوجوانوں اور کم تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جسے انگلینڈ ہی نہیں آئرلینڈ کے سرد موسم میں بھی مشکل صورت حال کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹرز یونس خان نے مزید کہا کہ آج کل یہ سوچ شدت سے پیدا ہو چکی ہے کہ نئے کھلاڑیوں کی جانب دیکھو اور پرانے کھلاڑیوں کی اہلیت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔

یونس کے خیال میں ایسا سوچنا درست نہیں ہے، تجر بے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔

فواد عالم کی تکنیک پر کی جانے والی تنقید کے بارے میں یونس خان نے کہا کہ میں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں کیوں کہ ہر کھلاڑی اپنی تکنیک کے ساتھ پرفارمنس پیش کرتا ہے۔

یونس خان نے کہا کہ میرے بارے میں لوگ خیال کرتے تھےکہ میں آسڑیلیا اور انگلینڈ میں جا کر ناکام ہو جاؤں گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ آسڑیلیا میں یونس خان نے جو 6 ٹیسٹ میچز کھیلے وہاں 50.63 کی اوسط سے انہوں نے 557 رنز اسکور کئے جبکہ انگلینڈ میں یونس خان نے 9 ٹیسٹ میچز میں 50.52 کی اوسط سے 810 رنز بنائے۔

یونس خان کے مطابق جہاں تک بڑھتی عمر کی بات ہے تو مصباح الحق 41 سال اور وہ خود 39 سال کی عمر تک پاکستان کے لیے کھیلے لیکن ان کی عمر ان کی پرفارمنس اور کارکردگی کے درمیان کبھی حائل نہیں ہو ئی۔

انہوں نے کہا کہ عمر صرف ایک نمبر ہے جسے جواز بنا کر کسی کے مستقبل کا فیصلہ کرنا اصولی بات نہیں ہو گی۔

جب یونس سے پوچھا گیا کہ کیا ٹیم کے انتخاب میں چیف سلیکڑ ،کپتان اور کوچ کسی کو جواب دینے کے مجاز نہیں تو یونس نے کہا کہ ’ایسا ہوتا ہے، لیکن ایسا سوچ لینا کہ جو مجھے اچھا لگتا ہے وہ درست ہے یا جو میں سوچتا ہوں وہی ٹھیک ہے، ٹیم بناتے وقت ایسی سوچ مناسب نہیں ہوتی،کیوں کہ جب آپ کپتان ہوتے ہیں، کوچ یا پھر بطور چیف سلیکڑ آپ کو ہمیشہ وہ فیصلہ کرنا چاہیے جو ٹیم کے وسیع تر مفاد میں ہو‘۔

مزید خبریں :