جینز پہننے والی طالبات اور 'بے حیائی' کا سدباب

اگر مشرقی جرمنی سے لے کر بھارت تک خواتین کے جینز پہننے پر پابندی لگ چکی ہے تو ہمیں ان سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ یہ 'غیرت کا معاملہ' ہے—۔فائل فوٹو

جینز پہننے والی طالبات یا لڑکیوں کے حوالے سے حالیہ کچھ عرصے میں متعدد خبریں اور بیانات سامنے آتے رہے ہیں، گاہے بگاہے مختلف یونیورسٹیوں کی جانب سے طالبات کے جینز پہننے پر پابندی کی خبریں بھی سننے کو ملیں اور رواں برس مارچ میں پنجاب حکومت نے ایک ہدایت نامے کے ذریعے اساتذہ کے جینز پہننے پر بھی پابندی عائد کر دی۔

 گزشتہ چند برسوں میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی آف فیصل آباد، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، فاسٹ نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، کنیئرڈ کالج اور ایسے دیگر بڑے تعلیمی اداروں کی جانب سے مختلف وجوہات کی بنیاد پر طالبات کے جینز پہننے پر پابندی کی خبریں آتی رہی ہیں۔ بات تو معقول ہے۔ کسی لڑکی کے جینز پہننے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ 'مغرب زدہ خیالات' کی حامل ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ مغرب بھی اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتا رہا ہے۔ باشعور مغربی قوموں نے بھی اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ مشرقی جرمنی کی 'باحمیت حکومت' نے جینز پر طویل عرصے تک پابندی عائد کیے رکھی۔ اُدھر تعلیمی اداروں اور ڈسکو میں جینز پہننے کی ممانعت تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کے باشعور رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جینز صرف وہی افراد پہنتے ہوں گے، جو مجرمانہ اور آوارہ ذہنیت کے مالک ہوں گے۔

بگڑا ہوا بھارت بھی جینز پر پابندی لگا رہا ہے۔ پٹنہ کے مگدھ مہیلا کالج نے طالبات کے جینز پہننے پر پابندی لگادی ہے۔ آگرہ کے ایک گاؤں کی پنچایت نے لڑکیوں کے جینز پہننے پر پابندی لگاتے ہوئے شراب نوشی اور جوئے کے اڈوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیرالہ کے ایک پروفیسر صاحب نے تو اس کے عواقب پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ علم نباتیات کے پروفیسر راجتھ کمار نے بتایا ہے کہ وہ عورتیں جو جینز اور شرٹس پہنتی ہیں ان کے ہاں عام بچوں کی بجائے خواجہ سرا پیدا ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے کیرالہ میں خواجہ سراؤں کی تعداد 6 لاکھ ہو چکی ہے۔

اگر مشرقی جرمنی سے لے کر بھارت تک جینز پر پابندی لگ چکی ہے تو ہمیں ان سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ یہ 'غیرت کا معاملہ' ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جینز کی جگہ طالبات کیا پہنیں؟ بہتر ہے کہ طالبات کو ہمارا روایتی لباس پاجامہ پہننے کی ترغیب دی جائے۔

پاجامے کو ہر قسم کے فیشن میں بہ سہولت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بے شمار اقسام ہیں۔ جن لڑکیوں کو کھلا ڈلا لباس پسند ہے وہ کان پور اسٹائل کا لہراتا ہوا پاجامہ پہن سکتی ہیں۔ جن طالبات کو جسم سے چپکے ہوئے تنگ کپڑے پسند ہیں وہ چوڑی دار پاجامہ پہن لیں۔ پھر لٹھے سے لے کر مختلف لان اور دیگر اقسام کے رنگ برنگ پاجامے دستیاب ہیں۔ جینز میں تو بس دو تین رنگ ہی ہوتے ہیں اور ڈیزائن سب کا ایک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پاجامے میں کتنی زیادہ ورائٹی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر جدید ڈیزائنر لباس میں جینز یا شلوار کی بجائے پاجامے کا رواج ترقی پا رہا ہے۔

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض طالبات نہایت ہی مہین کپڑے کے پاجامے پہن لیتی ہیں جس سے پردے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے، بہتر ہے کہ جینز پر مکمل پابندی عائد کرنے کے بعد پاجامے کے بارے میں بھی رہنما اصول وضع کر دیئے جائیں۔

پہلا یہ کہ پاجامے کا کپڑا خوب موٹا ہونا چاہیے۔ ہو چاہے کاٹن کا، لیکن اتنا دبیز ہو کہ اس کے آر پار دیکھنا ممکن نہ ہو تاکہ بے پردگی سے بچا جا سکے۔ اس کے علاوہ طلبہ و طالبات کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس وقت نہایت کم ہوتا ہے اور عام لٹھے کے پاجامے پر نہ صرف ایک گھنٹے میں شکنیں پڑ جاتی ہیں بلکہ ایک مرتبہ پہننے کے بعد اسے دھونا بھی پڑتا ہے، لہذا اس مسئلے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

ہم نے مارکیٹ میں نیلے اور کالے رنگ کی کاٹن کا ایک خوب موٹا کپڑا دیکھا ہے۔ اس کے بنے ہوئے پاجامے کو چاہے مہینے بھر نہ دھوئیں، یہ بالکل صاف لگتا ہے اور اس کی استری بھی خراب نہیں ہوتی ہے۔ بہتر ہے کہ پاجامے بنانے کے لیے لٹھے کی بجائے اسے استعمال کیا جائے۔ بعض طالبات ہینڈ بیگ وغیرہ استعمال کرنے سے کتراتی ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے اس موٹے کپڑے کے پاجامے میں جیبیں بھی لگائی جا سکتی ہیں جن میں وہ اپنے پیسے اور موبائل وغیرہ رکھ لیں۔

ہمیں امید ہے کہ اس جدید وضع کے موٹے کپڑے کے پاجامے، جس میں جیبیں، بٹن اور بیلٹ موجود ہو، کے استعمال کے نتیجے میں معاشرے میں پھیلی ہوئی بے حیائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طالبات مغرب زدہ بھی نہیں ہوں گی اور اپنی روایت کے مطابق موٹے کپڑے سے بنا ہوا یہ پاجامہ پہن کر نہ صرف وہ دور سے ہی مشرقی خیالات کی علمبردار ہونے کا بصری ثبوت فراہم کر دیں گی بلکہ یونیورسٹی حکام کو اس ہیجان سے بھی نجات مل جائے گی جس میں وہ جینز میں ملبوس طالبات کو دیکھ کر مبتلا ہو جاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ humsub.com.pkکے مدیر ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔