28 مئی ، 2018
قومی ٹیم کا کرکٹ کے گھر لارڈز میں میزبان ٹیم کو چوتھے روز 9 وکٹ سے شکست دے دینا ایک کارنامہ ہی تھا، جس کے متعلق خود پریس کانفرنس میں کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ انھیں اس جیت کا یقین نہیں آرہا،کیوں کہ لارڈز میں وہ ایسی ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے کھیل رہے تھے، جس کے 7 کھلاڑی پہلی بار اس میدان میں کھیلنے کا تجربہ حاصل کر رہے تھے۔
جیت کی اس خوشی میں مبارکباد کے مستحق کپتان اور کھلاڑیوں کے ساتھ کوچ، ٹیم مینجمنٹ کے اراکین، سلیکشن کمیٹی اور چیئرمین پی سی بی سب ہی ہیں، البتہ لارڈز ٹیسٹ کی جیت کے ساتھ یہ کہہ دینا کہ سب درست چل رہا ہے اور سلیکشن پر اب کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، قطعاً مناسب نہیں ہوگا۔
وہ چند لوگ جو ہوا کی سمت کے ساتھ اپنی پوزیشن تبدیل کر نے میں کمال مہارت رکھتے ہیں اور جن کی رائے حقائق سے ہٹ کر حالات کے ساتھ چلتی ہے، انھیں دور رکھ کر لوگوں کی اکثریت جو کرکٹ کے کھیل کو سمجھتی ہے، اب بھی میری اس بات سے انکار نہیں کرسکتی کہ فواد عالم کا معاملہ انصاف کے ترازو میں نہیں تولا گیا، ورنہ پلڑا اس نوجوان کا ہی بھاری ہوتا، جو فٹنس اور ڈومیسٹک پرفارمنس کے لحاظ سے اگر اعداد و شمار کے ترازو میں رکھا جائے تو آج بھی کئی کھلاڑیوں سے آگے ہی دکھائی دے گا۔
تنخواہ کی مد میں ماہانہ 20 لاکھ روپے سے زیادہ وصول کرنے والی انضمام الحق کی چار ارکان پر مشتمل سلیکشن کمیٹی کی اہلیت جانچنے کا پیمانہ جس طرح ٹیم کی کارکردگی ہے، بالکل اُسی طرح فواد عالم کے لیے آواز اٹھانے والے میڈیا کے دلائل میں فواد کے پندرہ سالہ فرسٹ کلاس کیریئر کے 145 میچوں میں 55.37 کی اوسط سے بنائے گئے 10742 رنز ہیں، جس میں 27 سینچریاں بھی شامل ہیں۔
فواد عالم کا معاملہ انصاف کے ترازو میں نہیں تولا گیا، ورنہ پلڑا اس نوجوان کا ہی بھاری ہوتا
ڈبلن اور لارڈز میں ٹیم پاکستان کی جیت کے بعد فواد عالم کا کیس بند ہونے کی بات کرنے والے نادان لوگ یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کی پرفارمنس قومی ٹیم میں شامل ہونے کا پیمانہ ہے، فواد عالم کی ٹیم میں شمولیت اور قومی ٹیم کی جیت دو علیحدہ معاملات ہیں۔
میں اپنی اس بات پر آج بھی قائم ہوں کہ فواد عالم کے ساتھ نا انصافی ہوئی، ان کے معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا، چیف سلیکڑ کے بھتیجے امام الحق کی ڈبلن ٹیسٹ میں 74رنز کی ناقابل شکست رنز کی اننگز اور لارڈز ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ناقابل شکست 18 رنز سراہے جانے کے قابل ہیں، لیکن اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بائیں ہاتھ کے اس بیٹسمین کو رشتے داری کا ایڈوانٹج نہ ملتا تو شاید ابھی اسے انتظار کے مرحلے سے گزرنا پڑتا، ورنہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں امام الحق سے زیادہ عمدہ کارکردگی دکھانے والوں کا کیا قصور ہے؟
چیف سلیکڑ انضمام الحق 15 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اگر اس بنیاد پر لے رہے ہیں کہ وہ اپنے رشتے داروں میں چھپے ٹیلنٹ کو موقع فراہم کریں، تو پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کو بند کر دینا چاہیے۔ پاکستان کی قومی ٹیم کے لیے کھیلنا اور منتخب ہونا ہمیشہ ایک اعزاز تھا اور رہے گا اور صرف فواد عالم نہیں بلکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے تمام کرکٹرز کو موقع ملنا چاہیے۔
امام الحق کو اگر رشتے داری کا ایڈوانٹج نہ ملتا تو شاید ابھی اسے انتظار کے مرحلے سے گزرنا پڑتا
میں ایسا ہی سوچتا ہوں ! ہاں پرفارمنس کے باوجود کوچ مکی آرتھر،کپتان سرفراز احمد اور انضمام الحق کی سلیکشن کمیٹی کے اس کھلاڑی کو جانچنے کے پیمانے مختلف ہو سکتے ہیں، جس کے بارے میں اس کھلاڑی اور میڈیا کو واضح جواب ملنا چاہیے،کیوں کہ اگر پی سی بی اور اس سے جڑے لوگ پاکستان کرکٹ کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں تو میڈیا کا بھی اس معاملے میں کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اور فاسٹ بولر محمد عباس اس کی زندہ جاوید مثال ہیں، یہ درست ہے کہ میڈیا کسی کھلاڑی کو ٹیم میں شامل نہیں کروا سکتا، البتہ دلائل اور حق بات میڈیا کا کام ہے، جو اسے کرنا چاہیے اور یہی فواد عالم کے کیس میں بھی ہے۔