11 جون ، 2018
اسلام آباد: سینئر وکیل خواجہ حارث اور ان کی ٹیم سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز سے علیحدہ ہوگئی۔
احتساب عدالت میں آج نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کے دوران خواجہ حارث نے عدالت سے اپنا وکالت نامہ واپس لینےکی درخواست کی۔
خواجہ حارث نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف تینوں نیب ریفرنسز کا ٹرائل 6 ہفتوں میں مکمل کرنے سے متعلق ان کے موقف کو تسلیم نہیں کیا اور یہ ڈکٹیشن بھی دی کہ ایک ماہ میں ریفرنسز کا فیصلہ کریں۔
خواجہ حارث کے مطابق انہیں عدالتی اوقات کے بعد بھی کام کرنے کی ڈکٹیشن دی گئی اور ہفتے اور اتوار کو بھی عدالت لگانے کا کہا گیا۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں وہ کام جاری نہیں رکھ سکتے۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق ان کے موقف کو بھی تسلیم نہیں کیا، جبکہ بحیثیت ایک پروفیشنل وکیل وہ سمجھتے ہیں کہ تینوں ریفرنسز میں دلائل ایک ساتھ دیئے جاسکتے تھے۔
خواجہ حارث نے اپنا وکالت نامہ واپس لینےکی درخواست کرتے ہوئے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا۔
اس موقع پر جج محمد بشیر نے نواز شریف سے استفسار کیا کہ 'آپ نیا وکیل رکھیں گے یا خواجہ حارث کو راضی کرلیں گے؟'
سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ 'مجھے مشورے کے لیے کچھ دن دیے جائیں'۔
جس پر احتساب عدالت نے ملزم نواز شریف کو وکیل مقرر کرکے کل (12 جون) تک عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
نوازشریف نے کیس ملتوی کرنے کی درخواست نہیں کی: بیرسٹر ظفراللہ
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا ہےکہ 9ماہ ہوچکے، نوازشریف نے کیس ملتوی کرنے کی درخواست نہیں کی، جج نے لکھا ہے کہ تینوں ریفرنسز پر فیصلہ ایک ساتھ آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ کیس مسلم لیگ (ن) کا نہیں، نواز شریف اور ان کے خاندان کا ذاتی ہے، جو قانون سب کے لیے وہی ہم پر بھی لاگوکریں، انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں، اسی پیشیاں ہوچکیں پراسیکیوشن اپنا کیس ختم نہیں کررہی۔
بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا تھا کہ ہم لکھ لکھ کردے چکے کہ واجد ضیاء کو بلوائیں اور بیان ریکارڈ کرائیں، ایک طرح کا الزام اور ایک طرح کی جےآئی ٹی ہے، ایک جیسے حقائق ہیں، الزام ، جےآئی ٹی اور حقائق یکساں ہیں، فیصلہ بھی اکٹھا آنا چاہیے۔
واضح رہے کہ خواجہ حارث تقریباً 9 ماہ کے بعد نواز شریف کے نیب ریفرنسز سے علیحدہ ہوئے ہیں۔
خواجہ حارث کے اس فیصلے کے بعد نواز شریف کے خلاف تینوں ریفرنسز بظاہر تعطل کاشکار ہوگئے ہیں اور جب تک سابق وزیراعظم کوئی اور وکیل ہائر نہیں کریں گے، کارروائی آگے نہیں بڑھے گی۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف زیر سماعت تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنانے کا حکم دیا تھا۔
دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ 6 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کا وقت دیا جائے جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔
اس موقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'اب ان کیسز کا فیصلہ ہوجانا چاہیے، ملزمان بھی پریشان ہیں اور قوم بھی ذہنی اذیت کا شکار ہے'۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ احتساب عدالت اب ہفتے کے روز بھی تینوں ریفرنسز کی سماعت کرے گی، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ ہفتہ اور اتوار کو عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے۔
جسس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'خواجہ صاحب آپ ابھی جوان ہیں، میں بوڑھا ہو کر اتوار کو بھی سماعتیں کرتا ہوں'۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔
جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔