بلاگ
Time 21 جون ، 2018

ہم عہدِ یوسفی میں جیتے رہیں گے!

مشتاق احمد یوسفی — فائل فوٹو

یوسفی صاحب سے بات ہو سکتی ہے کیا؟

جی ایک منٹ ہولڈ رکھیے گا۔۔۔

جواب معلوم نہیں کس نے دیا تھا لیکن ایک منٹ تو کیا میں نے اسی وقت لائن کاٹ دی۔ اتنا بڑا نام، دنیا جانتی ہے مشتاق احمد یو سفی کو۔

معلوم نہیں بات کریں گے بھی یا نہیں اور اگر انھوں نے بات کر بھی لی تو میں کیا بات کروں گی ! ا ور پھر یہ ایک دفعہ نہیں ہوا کئی دفعہ ہوا۔ میں فون کرتی ، فون اٹھا نے والے سے ان سے بات کرنے کی استدعا کرتی اور پھر فون بند کر دیتی ۔

اتنی محنت اس سلسلے میں تھی کہ میں یوسفی صاحب کو جیو پر ایک ادبی نشست کے لیے آمادہ کر سکوں۔ ان کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ انٹرویوز خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر ریکارڈنگ سے دور رہتے ہیں۔ ہر ایک سے یہی سنا تھا اس لیے خاموشی سے بیٹھ گئی کہ جب اوروں سے نہ ہوا تو ہم سے بھی نہ ہو پائے گا۔ ہمیں یہ پراجیکٹ ایک ٹرک کی بتی سے زیادہ کچھ نہیں لگا۔ لیکن اگلے دن ہی دوبارہ کال کر لی ،اس دفعہ آواز مختلف تھی۔

یوسفی صاحب سے بات ہو سکتی ہے کیا؟

جی ضرور ہو سکتی ہے بلکہ ہو رہی ہے اگر آپ بات کرنا چاہیں تو کیونکہ میں تو روز فون تک آتا ہوں لیکن پھر آپ کی آواز نہیں آتی۔

اب تو آواز پھر بند۔۔کچھ توقف کے بعد بہت مشکل سے میرے منہ سے ایک آواز نکلی جو مجھے اپنی تو ہرگز نہ لگی۔ بہت مشکل سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا کہ جناب آپ سے ملاقات کا وقت درکار ہے۔۔۔ میں نے مدعا ہر گز نہ بیان کیا۔

ملاقات کے لیے وقت مل گیا۔اس کے بعد ایک لمبی داستان ہے کہ کیسے یہ معرکہ سر ہو ا۔ یوسفی صاحب کی ایک نہیں تین نشستیں جیو کے لیے ریکارڈ کیں اور اس بیچ میں یوسفی صاحب سے بہت ملا قاتیں ہوئیں اور یوں ہم یوسفی کی خوبصورت، گہری اور پر مزاح باتوں کے مشتاق ہوتے چلے گئے۔ انھیں جاننے کے لیے ان کی چار کتابیں کافی ہیں وہ کیا ہیں، کون ہیں، کیا سوچتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں، کیا چاہتے ہیں۔چنانچہ اس نتیجے پر پہنچی کہ یوسفی صاحبب سے بالمشافہ ملاقات نہ ہو تو ان کی کتابیں ضرور پڑھ لینی چاہیے ملاقات ہو جائے گی اور ایسی ویسی نہیں بلکہ آپ ان کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گے، ان سے مانوس ہو جائیں گے اور ان کی تحریر کے مسکراتے ،کھلکھلاتے ، قہقہے لگاتے پرستار ہو جائیں گے۔

یہ سرگزشت ایک عام آدمی کی کہانی ہے جس پر الحمداللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ایک ایسے آدمی کے شب و روز کا احوال جو ہیرو تو کجا اینٹی ہیرو ہونے کا بھی دعوی بھی نہیں کر سکتا۔ یہ طغیانِ شباب ، لا فِ ہائے شاد کامی ، معاصرانہ چشمکوں اور سیاست کی شورا شوری کی داستان نہیں نہ کسی مہم جوئی اور کشور کشائی کا ساگا ہے ۔باایں ہمہ میں خود کو سکندرِ اعظم سے زیادہ خوش نصیب و کامران سمجھتا ہوں۔

تو ایسا یوسفی صاحب کیوں نہ سمجھیں۔ پانچ کتابیں تصنیف کیں اور اردو ادب کا مزاح تمام کا تمام عہدِ یوسفی ہو گیا۔ انھوں نے اپنے پڑھنے والوں کے دل اور دماغ دونوں پر حکمرانی کی۔

موضوع چاہے ان کی اپنی ذات تھا، ان کا خیال ان کا ہمزاد تھا، عام سی چارپائی تھی یا پھر بھاری بھر کم ملکی حالات، انھوں نے مزاح کے ہر موضوع کو موزوں کیا، اس میں ایک نیا پہلو ایک نیا زاویہ نکالا۔ جس سے پڑھنے والا نہ صرف چونکا بلکہ اس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ تو کبھی قہقہہ بکھر گیا اور کبھی تو آنکھوں میں آنسو بھی چمک چمک گئے۔ یہ ہنر بھی صرف مشتاق صاحب کے حصے میں آیا کہ ہنسایا، رلایا، ساتھ میں خیال بھی جگایا اور سوچ کی الجھی گتھیوں کو سلجھایا۔

اوپر لکھی گئی سطروں کو خراجِ عقیدت ہر گز نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ الفاظ تو یوسفی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہیں۔ ان سے یہ حق ادا نہیں ہو سکتا۔ لکھنے کو اور بہت کچھ بھی ہے لیکن لکھتے ہوئے کسی بھی طرح انگلیاں 'کی بورڈ 'کی مدد سے یہ لکھنے کو آمادہ نہیں کہ اب مشتاق احمد یوسفی ہم میں نہیں رہے۔ فیس بک کی ٹائم لائن اس خبر کے بعد سے دیکھی نہیں گئی، واٹس ایپ کے گروپس میں جھانکا تک نہیں گیا۔کہیں کہیں نظر پڑی تو لکھا نظر آیا کہ عہدِ یوسفی تمام ہوا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ 

کوئی اور یوسفی پیدا ہوگا تو لوگ اس کے مشتاق ہوں گے ورنہ تو یونہی اسی عہدِ یوسفی میں جیتے رہیں گے۔

جیو نے ادب کا قدر دان ہوتے ہوئے ہمیشہ یوسفی صاحب کو دل کے قریب رکھا اور تخلیق اور جدت لیے پروگراموں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے عہدِ یوسفی بہ زبانِ یوسفی اپنے نا ظرین تک پہنچایا۔

ظہیر فتح پوری نے کہا ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں ۔۔۔اور اس جملے کو اب کیوں نہ آگے بڑھا لیجیے کہ ہم عہدِ یوسفی میں جیتے رہیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔