نواز شریف لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں اور نہ ان سے کوئی تعلق ہے، خواجہ حارث

سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کے پاناما فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت میں جاری ہے، جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل چوتھے روز حتمی دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں اور نہ ہی اُن کا ان سےکوئی تعلق ہے۔

 احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز دلائل دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ جےآئی ٹی ایک تفتیشی ایجنسی تھی، جو تفتیش کے لیے قانون وضع کرتی ہے کہ قابل قبول شہادت کونسی ہے اور کونسی نہیں؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ جےآئی ٹی سربراہ کا کام صرف تفتیش کرکے مواد اکٹھا کرنا تھا،کوئی نتیجہ اخذ کرنا جے آئی ٹی کا اختیار نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ جے آئی ٹی سربراہ کے اخذ کیے گئے نتائج اور رائے قابل قبول شہادت نہیں۔

آج سماعت کے دوران خواجہ حارث نے حتمی دلائل کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا، جہاں کل ٹوٹا تھا اور کہا کہ استغاثہ کو لندن فلیٹس کی ملکیت بھی ثابت کرنا تھی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ ان کے موکل لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں اور نہ ہی ان کا ان سےکوئی تعلق ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء استغاثہ کے گواہ تھے اور ان کا بیان دو حصوں میں تقسیم ہونا ہے۔

خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ جس متفرق درخواست اور طارق شفیع کے بیان حلفی پر استغاثہ انحصار کر رہی ہے، اس میں نواز شریف کا کہیں ذکر نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کے مطابق 1973 میں وہ 19 سال کے تھے، جب میاں شریف انہیں دبئی لے کر گئے اور 1974 میں گلف اسٹیل مل بنائی گئی۔

خواجہ حارث کے مطابق طارق شفیع کے دوسرے جمع کرائے گئے بیان حلفی میں بھی نواز شریف کا کہیں ذکر نہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جو متفرق درخواستیں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں جمع کرائیں وہ استغاثہ ریکارڈ پر نہیں لائی۔

طارق شفیع کے بیان حلفی میں نواز شریف کا ذکر نہیں ، خواجہ حارث

خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ کا انحصار دبئی اسٹیل مل کے معاہدے پر ہے، اس میں سب کردار ہیں مگر نواز شریف نہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 1978 کے اس معاہدے کا ایک صفحہ غائب ہے۔

جس پر عدالت نے نیب کو تفریق شدہ صفحہ جمع کرانے کا حکم جاری کردیا۔

خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ طارق شفیع کے مطابق 1978 میں نواز شریف نے دبئی اسٹیل مل کے 751 شیئرز فروخت کیے جبکہ 1980کے معاہدے میں نواز شریف نےخود کو گلف اسٹیل مل سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ساتھ ہی خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ یہ دستاویزات استغاثہ کی ہیں، اس کے مطابق نواز شریف کا کیسے ان سے تعلق جڑتا ہے؟

خواجہ حارث نے حتمی دلائل کے دوران مریم اور حسین نواز کے درمیان کومبر گروپ ٹرسٹ ڈیڈ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی تیسرا شخص نہیں اور اس ٹرسٹ ڈیڈ کا بھی نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں جڑتا۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے ان کے موکل نےتنخواہ لی، اس کا ایون فیلڈ سے کیا تعلق ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی تنخواہ 2008 کا معاملہ ہے، تنخواہ وصولی کی کوئی دستاویز نہیں بلکہ اسکرین شاٹ دیا گیا اور اگر تنخواہ وصول بھی کی تو اس سے ایون فیلڈ کا کیا تعلق بنتا ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آتی جےآئی ٹی نےکوئسٹ سالیسٹر کو کیوں ہائر کیا؟

خواجہ حارث نے کہا کہ آج میں نےاستغاثہ کی پیش کردہ 81 دستاویزات کا جائزہ لیا ہے،ان میں سے اگر کوئی ایون فیلڈ سے متعلقہ ہے تو وہ شیزی نقوی کا بیان حلفی ہے، جن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا حدیبیہ کے قرض اور ڈیل وغیرہ سےکوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے اسٹیفن مورلے ایکسپرٹ رپورٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیفن مورلے نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق اپنی رائے دی، لیکن ان کی رائے کا نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں، اگر وہ بطور گواہ کٹہرے میں آجائیں تو بہت بہتر ہوگا۔

خواجہ حارث کے مطابق اسٹیفن مورلےکہتے ہیں کہ انہوں نےعمران خان نیازی کی ہدایت پر حسین نواز اور مریم نواز سے متعلق ایکسپرٹ رائے تیار کی، اس رائے کا بھی نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیفن مورلے سے سوال جواب اور ان کی رائے میں کہیں بھی نواز شریف کا ذکر نہیں۔

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ استغاثہ نے دو چارٹ ایک صفحے پر دیئے، اس پر بعد میں لڑیں گے کہ علیحدہ علیحدہ کیوں نہیں دیئے، لیکن اس میں بھی ایون فیلڈ کا ذکر نہیں بلکہ نیلسن اور نیسکول کا بھی ذکر نہیں۔

دلائل کے دوران خواجہ حارث نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا جواب بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔

العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔

جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔

مزید خبریں :