25 جون ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی فارم کے حلف نامے کی شق 'این' ایک کے تحت امیدواروں کو اپنی کارکردگی بتانا لازم قرار دیا تھا لیکن فارم میں امیدواروں نے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ کارنامہ بتایا جس کی بنیاد پر ریٹرننگ افسران نے ان کے فارم مسترد کیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد کے ایپلٹ ٹریبونل نے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف سماعت کی، اس موقع پر فاضل جج نامزدگی فارم مسترد ہونے والوں کے جوابات پڑھ کر مسکرانے پر مجبور ہوگئے۔
کاغذات نامزدگی فارم کی شق 'این' میں امیدوار کو بتانا تھا کہ آپ نے اپنے حلقے کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کیا کام کیے جس پر ایک امیدوار نے لکھا کہ انہوں نے دوسری شادی نہیں کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے الیکشن کمیشن کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ یہ فارم انگریزی میں ہی تھا یا اردو میں بھی جاری کیا گیا۔
فاضل جج نے کہا کہ اکثر امیدواروں کو سوال ہی سمجھ نہیں آیا اور کچھ امیدواروں نے یہ بھی لکھ دیا کہ انہوں نے دوسری شادی نہیں کی۔
یہاں تک کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حلف نامے کی شق این میں لکھا کہ 'میں نے اپنا وقار برقرار رکھا اور ٹیکس ادا کیا'۔
کچھ امیدواروں نے یہ لکھا کہ انہیں فنڈز ہی نہیں ملے۔
ایپلٹ ٹریبونل نے الیکشن کمیشن کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ اس طرح کی غلطیوں کے بعد امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں، اس حوالے سے الیکشن کمیشن عدالت کی رہنمائی کرے۔
یاد رہے کہ کئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اس لیے مسترد ہوئے کہ انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے کاموں سے متعلق شق این کے خانے میں کچھ نہیں لکھا اور اگر لکھا تو غلط لکھا، جس پر ریٹرننگ افسران نے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے۔