26 جون ، 2018
ترکی کے حالیہ انتخابی نتائج نے بتا دیا کہ جمہوریت پسند عوام کیسی ہوتی ہے اور 90 فیصد سے زائد ترک ووٹرز نے اپنے ووٹ کی طاقت کو سمجھا، گھروں سے نکلے اور ان کی اکثریت نے اپنا وزن صدر اردوان کے پلڑے میں ڈال دیا۔
اسے کہتے ہیں مقبولیت اور اسے کہتے ہیں لیڈرشپ، اگر پاکستان میں بھی کوئی سیاسی قیادت اپنی مقبولیت کا درست اندازہ کرنا چاہتی ہے تو وہ صدر اردوان کی طرز حکمرانی اور عوام سے بے پناہ قربت دیکھ کر بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔
انتخابات پر اب اربوں نہیں کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہ کھربوں روپے جیتنے کے لیے لگائے جاتے ہیں،کیا یہ "سرمائے کا بے دردی سے کیا جانے والا زیاں" نہیں؟ کیوں کہ ہماری سیاسی قیادت اور ان کی " منظور نظر اشرافیہ " کی خواہش عوام کی خدمت نہیں بلکہ ان پر حکومت کرنا ہوتی ہے۔
ترکی میں ہونے والے ان عام انتخابات کو اگر دو سال پہلے منحرف فوجیوں کی بغاوت کی کوشش کے پیرائے میں دیکھا جائے تو بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ بغاوت کی اس کوشش کو عوام کی دلیرانہ مزاحمت کے بعد فوج کی اکثریت نے مل کر ناکام بنادیا تھا۔
یہ واضح ہے کہ صدر اردوان عوام کے دلوں پر حکومت کر رہے تھے نا کہ بادشاہ یا کسی ایسے آمر کی مانند جسے صرف اپنی حکمرانی سے مطلب ہو۔ یہ اردوان کی مقبولیت ہی ہے جس کی وجہ سے ترکی میں آرام اور اطمینان کے ساتھ ایک نظام سے دوسرے نظام کی جانب نیا سفر شروع ہو گیا ہے، یعنی پارلیمانی نظام حکومت سے صدارتی طرز حکمرانی تک۔
اب ہم آتے ہیں پاکستان کی جانب جہاں تواتر سے آنے والے حکمرانوں نے عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے کے بجائے انہیں اپنی رعایا سمجھا۔ یہاں عوام سے ایسا برتاؤ کیا گیا جیسے حکمرانوں پر عوام کا حق نہیں بلکہ اقتدار پر براجمان حکمرانوں کا عوام پر الٹااحسان ہو، عوام غریب سے غریب تر اور حکمران امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔
انہوں نے پاکستان سے باہر دبئی، لندن اور نیویارک سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں محل بنا ڈالے ہیں اور آج صورت حال یہ ہے کہ یہاں عوام میں سیاست کا بنیادی شعور ہی بیدار نہیں ہوسکا اور ایسی صورتحال میں سوال یہ بنتا ہے کہ عوام کس طرح اپنے ووٹ کی طاقت کو سمجھ سکیں گے۔
ملک میں کئی معاملات اور مسائل فوری حل چاہتے ہیں، مثلاً " فاٹا کے عوام کی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کے مطالبے کی شنوائی ہونی چاہیے۔ فاٹا والے سڑکوں پر اپنا حق مانگ رہے ہیں وہاں پر صوبائی اسمبلی کے لیے انتخاب عمل میں لایا جائے ، جس طرح فاٹا کا انضمام کیا گیا اسی طرح وہاں انتخابات بھی کرائے جائیں جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔
عام انتخابات پاکستان میں ایک تماشہ بن کر رہ جاتے ہیں جس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن، حکومت اور ان اداروں پر عائد ہوتی ہے جو اس عمل میں کردار ادا کرتے ہیں جس طرح ترکی میں انتخابات ہوئے، نتائج آئے اور حریف نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ کوئی ہنگامہ کوئی الزام یا بدتمیزی نہیں ہوئی، ہارنے والے گھر چلے گئے جیتنے والوں نے جشن منایا۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پولنگ سے پہلے ہی انتخابات کو مشکوک بنایا جارہا ہے۔
غیر جانبدار سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پہلے ہر امیدوار انتخابی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کیا کرتا تھا لیکن اب یہ رقم اربوں روپے میں پہنچ چکی ہے۔
انتخابی مہم پر اخراجات کی حد تو مقرر ہے اور اس سے متعلق قانون بھی موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں چلائی جانے والی انتخابی مہمات پر سفید اور کالا دھن ملاکر تقریبا 100 ارب روپے سے زائد خرچ ہوتا ہے۔ اس میں سیاسی قائدین کا پرائیویٹ جٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا بے دریغ استعمال شامل نہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ انتخات کھربوں روپوں کا سودا بنتا جارہا ہے جس میں تاجر پیشہ افراد کا امیدوار پر لگایا جانے والا سرمایہ، امیدوار کا اپنا کالا دھن اور جیت کی صورت میں کچھ یا سب کچھ ملنے کی امید پر حمایت کرنے والے کا خرچ بھی شامل ہے-
اس معاملے پر کسی تنقید سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابات سے پہلے سخت ایکشن لے تاکہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے کہ انتخابی مہم پر کئے گئے خرچے پر نظر رکھنے کے لیے کمیشن کی جانب سے بر وقت اقدامات کیوں نہیں کیے اور اگر اس وقت یہ ممکن نہیں تھا تو انتخابات کے بعد کسی غیر جانبدار سروے یا آڈٹ کروانے کا کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟
نوجوان ووٹرز نے شاید یہ تماشہ نہ دیکھا ہو لیکن کئی سینئر ووٹرز یہ تماشہ دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح بیلٹ بکس بھرے جاتے ہیں اور کس طرح دھاندلی ہو تی ہے۔
یہ کارروائیاں اکثر و بیشتر دور دراز کے علاقوں میں کی جاتی ہیں جہاں غیر جانبداری سے انتخابی عمل پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا لیکن اس بار پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج کی تعیناتی کے فیصلے سے یہ امید ہو چلی ہے کہ دھاندلی کے ناسور کو قابو کیا جا سکے گا۔
الیکشن کیشن کو آزادی اور مالیاتی خود مختاری بھی مل گئی ہے لہذا اب یہ الیکشن کمیشن پر ہے کہ وہ کس طرح صاف، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے انعقاد کرانے کے لیے اقدامات کرتا ہے۔
دوسری جانب عام انتخابات میں اب ایک ماہ رہ گیا ہے اور فاٹا کے عوام پاکستان میں انضمام کے بعد سیاسی دھارے میں شامل ہونے کے لئے بیتاب ہیں لیکن دیگر پاکستانیوں کے ساتھ ووٹ دینے کے لیے آج بھی سڑکوں پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، ان کو صوبائی اسمبلی میں اپنے نمائندے کھڑے کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں، ان کا یہ مطالبہ بظاہر بڑا جائز اور بروقت ہے جس پر عمل درآمد شاید فی الحال مشکل ضرور ہو لیکن ناممکن نہیں۔
پارلیمان کی کرسیوں پر براجمان سیاسی اشرافیہ چاہتی ہے کہ ان کا قبضہ ختم نا ہو کیوں کہ اگر پاکستان میں ووٹر کی رائے کو حقیقی اہمیت حاصل ہوئی تو ایک ایسا سفر شروع ہوگا جس کا سب سے زیادہ نقصان نسل در نسل سیاست کرنے والے لیڈران کے مفادات کو پہنچے گا، بھلا اپنے خلاف بھی کبھی کسی کا فیصلہ آیا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری اسمبلیوں میں الیکٹبلز کے روپ میں بیٹھے لٹیرے قانون سازی اور فیصلے کرنے کے مجاز ہیں تو پھر وہ قانون سازی بھی کچھ اسی نوعیت کی کریں گے کہ انہوں نے اصلاحات کے نام الیکشن کو خدمت کے بجائے تجارت بنادیا۔
غریب ووٹرز کو محض ووٹ دینے اور طفل تسلیاں دے کر روزی روٹی کی تلاش میں سرکرداں رکھا، اپنی تنخواہوں، مراعات اور پنشن میں ہوش ربا اضافہ کیا۔ اپنی بادشاہت بچانے کے لیے راتوں رات قانون سازی کر لی گئی لیکن عوام کے مفاد کی خاطر کچھ نہیں کیا گیا، ان کی قسمت میں بہتر زندگی کی امید، دلاسوں اور جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہیں۔
لیکن حالیہ دنوں میں عوامی روئیے کے حوالے سے یقینا ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ تمام صوبوں اور جماعتوں کے کارکنان نے علاقے کے نمائندوں اور قائدین کے سامنے دلیری سے اختلاف رائے کا اظہا ر کرنا شروع کر دیا ہے جو ایک کے بعد ایک چراغ روشن ہونے کی نوید ہے اور یہی جمہوریت کی اساس اور اصل خوبصورتی ہے۔
جہاں تک انتخابی اصلاحالا ت کا معاملہ تو اس حوالے سے انتخابات میں باقی رہ جانے والے دنوں میں سب کچھ ممکن نہیں ورنہ متناسب نمائندگی ایک بہتر آپشن ہے، یعنی جیتنے کے لئے کسی بھی جماعت یا اتحاد کو ڈالے گئے کل ووٹوں کا کم از کم 50 فیصد حاصل کرنا ضروری ہو۔
اسی طرح صدر اور سینیٹ اراکین کا انتخاب بھی براہ راست ووٹ کے ذریعے ہو اور فی الحال ان تجاویز پر مباحثے اور سیمینار اور مذاکروں کے مستقل انعقاد کی ضرورت ہے۔
مجدد شیخ جیونیوز کی ایڈیٹوریل کمیٹی کے رکن ہیں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔