مائی کولاچی کی دعا ہے جہاں پہنچے

کراچی کا قدیم، مشہور اور مصروف کاروباری مرکز میٹھادر ہے۔ میٹھو سندھی میں میٹھے کو کہتے ہیں اور در دروازے کو یوں اردو میں یہ میٹھا در بن گیا۔

یہاں میٹھے سے مراد لیاری ندی کا میٹھا پانی ہے (جو اب میٹھا نہیں رہا) اور دروازہ سیٹھ ناؤمل کے قلعہ نما گھر کا دوسرا دروازہ سمندر کے کھارے پانی پر کھلتا تھا تو وہ ہوا کھارا در لیکن کاروبار قلعے کے چاروں طرف ہونے لگا۔

اس قلعے کو سیٹھ نے مائی کولاچی کی اجازت سے بنایا تھا ان کی دلچسپی صرف اتنی تھی کہ لوگوں کو روزگار ملے۔

مائی کی دعا کا ایسا اثر ہوا کہ آج بھی اس علاقے میں وہی گہما گہمی موجود ہے اور اسے ملک کے کاروبار کا دل کہنا غلط نہ ہوگا۔

ملک میں سمندری راستے سے آنے والے کھانے پینے کے سامان سے منسلک اس بازار کی افادیت افغانستان کو بھی ہوتی ہے۔

قائد بھی اسی علاقے میں پیدا ہوئے اور عبدالستار ایدھی کی ملک بھر میں جاری خدمت کا دل بھی یہیں دھڑک رہا ہے۔

بازار کی خصوصیت یہاں کی قدیم عمارتیں ہیں جبکہ یہاں ہر چیز کا بازار الگ ہے جیسے دال، چائے مصالحے، ڈرائی فروٹ، پان وغیرہ وغیرہ۔

پورٹ سے شروع ہو کر قریب دو کلومیٹر شہر کے جسم میں گہری اس سلسلے کی جڑ ہے۔

ایک رائے ہے کہ اس علاقے کو صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مختص کردیا جائے۔

بارش کے موسم میں یہاں کا محل و وقوع مزید دلفریب ہوجاتا ہے تاہم شہر کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی گندگی کی وجہ سے خوبصورتی ماند پڑگئی ہے۔

شہر کے اس حصے میں رات بھی خوب جچتی ہے۔ باکڑا روایتی اور پورٹ گرینڈ ایک جدید کوشش ہے۔

کراچی صنعتی اور تجارتی حب بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ملک کے ایک ہزار میل لمبے ساحل سے جڑا ہے، گودار پورٹ کی ایک اور کوشش ہورہی ہے۔

سی پیک راہدری شروع ہے اور سینٹرل ایشیاء اور روسی ملکوں کی مارکیٹیں شنگھائی معاہدے کی وجہ سے کھلی ہیں۔

یہاں چین روس اور وسطی ایشیائی ممالک آپ کے دوست ہیں۔ بھارت سے بھی کوئی رشتہ لیکن کوئی بیر بھی ہے ۔

آج کل پھر کوشش ہے قریب آنے کی، ماں کے دولختوں کو بات تو کرنا ہوگی اور وہ بھی برابری کی بنیاد پر۔

خیر جو ہوگا اچھا ہوگا کیوں کہ کراچی کے ساتھ مائی کی دعائیں ہیں۔

مزید خبریں :