02 جولائی ، 2018
خبردار ”سنجو“ نہیں دیکھیے گا! ہر گز مت دیکھیے گا۔ ایسے بھی کوئی فلم بناتا ہے یہ تو سراسر دھوکہ ہے ناانصافی ہے۔ راج کمار ہیرانی سے ایسی امید نہیں تھی کہ وہ ایسا ’دھوکہ‘ دیں گے۔
اپنے چاہنے والوں کو اس طرح پھانسیں گے۔ کتنی بری بات ہے کہ اگر ایک انسان اپنی مصروف زندگی سے” 4“ گھنٹے نکال کرفلم دیکھنے جائے ،کوئی باس کوئی بیگم کوئی ابا کوئی دوست سے بہانہ بنا کر سنیما ہال آئے اور پھر ”سنجو“ دیکھ کر اسی کا ہوجائے سب کچھ بھول جائے ایک شو ختم ہو تو فورا دوسرے میں گھس جائے دوسرے میں ٹکٹ نہ ملے تو اگلے دن کے شوز کے ٹکٹ پکڑ نے کیلئے لائن میں لگ جائے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی فلم کو تو سنیما ہال میں ختم ہوجانا چاہیے کہ کھیل ختم پیسہ ہضم لیکن یہ راج کمار ہیرانی کی پرانی ”بیماری“ ہے ایسی فلم بناتے ہیں جو دیکھنے والے سے چِپک جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ گھر آجاتی ہے اور پھر،، چلے چھوڑیں۔
سب سے پہلے آپ کو بتائیں کہ فلم سنجو کا ”پی کے “ کا وہی کنکشن ہے جو فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ اور ’تھری ایڈیٹس‘ کے درمیان تھا، اس فلم میں بھی ”رانگ نمبر“ کی گردان ہے اور تو اور” سرفراز دھوکہ نہیں دے گا“ کہ جھلک بھی۔ فلم میں سنجے کے دوست سلمان خان کی شکل تو دور کی بات ذکر بھی نہیں ہوا لیکن عامر اور شاہ رخ خان نے زوردار انٹری دی اور کیا آپ جانتے ہیں کہ سنجو فلم کیلئے آج سب کو شاہ رخ خان کو تھینکس کیوں بولنا چاہیے؟
ان سب باتوں کی الجھن کو آخر میں سلجھائیں گے لیکن ابھی آپ کو فلم کی تھوڑی سی کہانی بتاتے ہیں۔ سنجو ”نام“ ہے سنجے بابا کی کہانی ہے وہی سنجو جس کی اب تک کی پوری زندگی سانپ کی ”جنگ“ہے کبھی اوپر کبھی”اچانک“ دھڑام سے نیچے۔
داستان ہے اس بگڑے شہزادے کی جو 22 سال کا تھا تو”گمراہ“ ہو کر اتنی منشیات استعمال کی کہ پھیپڑے ختم ہوگئے اور ڈاکٹرز نے بھی اس کا چیپٹر کلوز کردیا، ہمت ایسی کہ نہ صرف ”زندہ“ رہا بلکہ ”راکی“ بن کر ڈاکٹرز کو بھی غلط ثابت کیا اور ایسا ”طاقتور“ ہوا کے لوگ محمد علی سے موازنہ کرنے لگے۔
”لائف ہو تو ایسی“ کہ چارٹرڈ طیاروں میں اکیلے وی آئی پی سفر بے شمار کیے لیکن حالات ایسے بھی دیکھے جب بس کا ”مسافر“ بننے کیلئے ایک ٹکٹ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ”سڑک“ پر بیٹھ کر بھیک بھی مانگی۔ دنیا کے مہنگے ترین شہروں کے مہنگے ترین ہوٹل میں رہنے والا ”ہیرو“جو اپنے کمرے کی کھڑکیوں سے پورا شہر دیکھتا تھا لیکن جب جیل جا کر”کھل نائیک“ بنا تو ایسی کال کوٹھری میں رہنا پڑا جہاں کھڑکی تو دور کی بات غالباََ روشنی کیلئے چھوٹا سا سوراخ بھی نہیں تھا۔
یہ ”کارتوس“بے بس ہوا تو پولیس والوں نے جھانپڑ بھی مارا، خطرہ ایسا کہ انڈر ورلڈ نے مروانے کیلئے سپاری بھی نکالا۔”لک“ ایسی کہ کلائی پر سجنے والی مہنگی خوبصورت گھڑیاں بھی پہنیں وقت پلٹا تو ان گھڑیوں کی جگہ قیدی والی ہتھکڑیاں بھی پہنیں۔ 300 سے زائد ”محبوبہ“کے ”ساجن“ بننے نے ایسے حالات نہیں دکھائے جو”خطروں کے کھلاڑی“ کو ایک ”ہتھیار“ اے کے 56 رائفل کی وجہ سے جھیلنے پڑے۔
سنجو کی زندگی اور اس میں آنے والے تنازعات سے تو سب واقف ہیں اور سب یہی توقع فلم سے بھی کر رہے تھے کہ سنجے کی زندگی پر بننے والی سنجو ایک ”بائیو پک“ ہوگی لیکن ایسا نہیں کیونکہ یہ تو راجو ہیرانی نے صاف صاف بتادیا تھا کہ سنجو کی لائف میں اتنا مصالحہ ہے کہ اس کو ایک فلم میں تو کیا دس فلموں میں بھی سمویا نہیں جاسکتا۔
سنجو کی کہانی سنجے دت کی زندگی کے بے شمار چیپٹرز میں سے صرف دو چار چیپٹرز لیکر بنائی گئی ہے اور ان دو چار چیپٹرز کو بھی راج کمار ہیرانی نے اپنے فارمولوں سے سجایا ہے ۔
اس فلم میں سنجے دت بطور ایک اسٹار کڈ، سنجے دت ایک باپ، سنجے دت ایک دوست ، سنجے دت ایک مجرم اور سنجے دت ایک نشانے کے طور پر ڈسکس ہوئے ہیں۔
یہاں آپ کو فلم کے کہانی کے” اسپائلر الرٹ“ سے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ پوری کی پوری فلم لفظ بہ لفظ بھی آپ کے سامنے لکھ دی جائے تو بھی آپ راجکمار ہیرانی کی ڈائرکشن، رنبیر کپور، وکی کوشل اور پاریش راول کی ایکٹنگ کی وجہ سے بار بار فلم دیکھنے جائیں گے۔
فلم کا پیغام یہی ہے کہ سنجو ٹھرکی ہے، ہیروئنچی ہے، چرسی ہے، شرابی ہے، مجرم ہے، ہیرو ہے، ولن ہے، بے وفا ہے، دھوکے باز ہے، بھرم باز ہے لیکن سنجو دہشت گرد نہیں ہے۔
فلم شروع ہوتی ہے ممبئی کے سمندر سے جہاں سنجو اپنی ”آپ بیتی“ کی ریہر سل کر رہا ہوتا ہے بس یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ رنبیر یا سنجے کی کشمکش میں پھنسے ہوتے ہیں۔ سنجو نیچے اترتا ہے اور دیکھنے والوں کیلئے اب صرف رنبیر ہی سنجو رہ جاتا ہے اب فلم کے” دی اینڈ“ تک آپ کیلئے رنبیر ہی سنجو ہے۔
سنجو کو اپنی کہانی سنانے کیلئے ایسا لکھنے والا چاہیے جو اس کی اے کے چھپن رائفل کو باپو (مہاتما گاندھی) کی لاٹھی سے نہ ملائے بلکہ اس کی اصل زندگی کی طرح پڑھنے والوں کی، (یہاں وہ ڈائیلاگ ہے جنھیں صرف سنجو کے منہ سے سنا جاسکتا ہے)۔
ابھی قہقہوں کا طوفان آیا ہی ہوتا ہے کہ بری خبر کا بھونچال اسے کھا جاتا ہے، یہاں وہ دُکھ بھی دیکھا جاتا ہے جو ایک بیٹے کی برائی بتاتے ہوئے اس کی مرحوم ماں کی تصویر دنیا بھر کو دکھا کر دیاجاتا ہے۔
یہاں سے انٹر ویل تک کی کہانی سنجو کی ڈرگز لینے سے ڈرگز چھوڑنے تک کا چیپٹر ”کور“ کرتی ہے۔ سنجو کو ڈرگز کا عادی کون بناتا ہے اور کیوں بناتا ہے؟ سنجو اور سنجو کے اپنوں کی زندگی ان ڈرگز سے کتنی متاثر ہوتی ہے؟ سنجو کا سب سے پکا دوست کون ہے اور وہ اس سے دور کیوں چلا جاتا ہے؟ روبی کون ہے اور سنجو روبی کی محبت کو کیوں کھوتا ہے؟ محبت کرنے والی ماں دور اور سختی کرنے والا باپ کتنا قریب آجاتاہے ؟ یہ سب سوالات کے جواب تو فلم دیکھنے والوں کو مل ہی گئے ہونگے۔
اس دوران فلم دیکھنے والا فلم سے بندھ چکا ہوتا ہے، یہ دو گھنٹے کب گزرتے ہیں فلم دیکھنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ فلم کے دوران اس کے آنسو بھی چھلک چکے ہوتے ہیں اور وہ قہقوں کے ساتھ سیٹیاں یا تالیاں بھی بجاچکا ہوتا ہے۔ پاریش راول پر فلمایا گیا ”کیا یہی پیار ہے“ گانا ہو یا پھر رنبیر کی سونم کے گھر پہلی انٹری سنجو کا بسنتی کی جگہ گبر سے رومانس ہو یا سنجو کاانوشکا کے بوائے فرینڈ کو ”لکی“ بلانا اور سب سے بڑھ کر سنجو کی اپنے پکے دوست سے پہلی ملاقات یہ مناظر ہنسا ہنسا کر پیٹ میں درد کرتے ہیں تو سنجو کا ڈرگز کی لعنت میں پڑ کر اچھے برے کی تمیز بھول جانا، منگل سوتر کی جگہ محبوبہ کو کموڈ پہنانا، میت پر مذاق کرنا، سڑکوں پر بھیک مانگنا فلم دیکھنے والوں کو ڈرادیتا ہے۔
ماں کی محبت ، ماں کو کھونے کا درد، پہلی فلم کے کامیاب پریمیئر پر ہار کا احساس فلم دیکھنے والوں کو رلاتا ہے۔کتنی آسانی سے جھٹ پھٹ راج کمار ہیرانی اور ابھیجات جوشی کی تحریر کو رنبیر کپور سنجے دت بن کر آ پ کے دل میں بسادیتے ہیں۔
فلم پہلے فریم سے دیکھنے والوں کو قابوکرچکی ہوتی ہے۔ بریک ختم ہونے کا انتظار کرنے والے دیوانے چاہتے ہیں جلد بریک ختم ہو اور شکنجہ اور کَس دیا جائے۔جتنی بے چینی سنجو کو ڈرگز چھوڑنے میں ہوتی ہے شاید اتنی ہی تکلیف فلم دیکھنے والوں کو اس بریک میں ہوتی ہے۔
بریک کے بعد کی کہانی سنجو پر دہشت گردی کا الزام لگنے کی اور جیل جانے کی ہے، سنجو واقعی دہشت گرد ہے یا نہیں؟ اس کا دوست اس سے سالوں سے کیوں نہیں ملا؟ کیا انوشکا سنجے کی کہانی مکمل کرے گی ؟ سنجو انڈر ورلڈ کیوں ملتا ہے؟ جیل میں اس کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے؟اس کے گھر والوں خصوصا والد سنیل دت کیا کیا تکلیفیں اٹھاتے ہیں؟ سنجو انڈر ورلڈ کی مدد کیوں لیتا ہے ؟سنیل دت کے کونسے استاد ہیں جن کی وجہ سے ان کی زندگی کی مشکلات آسان ہوتی ہیں ؟یہ سب سوالات کہ جوابات آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی ملیں گے۔
فلم کا سیکنڈ ہاف پہلے ہاف سے تھوڑا سا” کمزور“ ہے لیکن اس کمزور کی تعریف یہ ہے کہ یہ کمزور ہاف بھی بڑی بڑی اور کامیاب بالی وڈ فلموں سے مضبوط لیکن اپنے پہلے ہاف کی نسبت کمزور ہے۔ اس تعریف سے آپ سیکنڈ ہاف کی کمزوری نہیں بلکہ پہلے ہاف کے ”پاور فل “ہونے کا اندازہ لگائیں تو بہتر ہوگا۔
یہ ہاف شروع ہوتا ہے سنجے کی زندگی کے اس دور سے جب ان کے بال لمبے اور باڈی جاندار بن چکی ہے۔ اس دور میں ساجن اور سڑک سپر ہٹ ہوچکی تھیں اور پھر بانوے میں بابری مسجد کاسانحہ اور تیرانوے کے بلاسٹ سنجو کی زندگی بدل دیتا ہے اور انڈر ورلڈ سے اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ لینا انھیں قانون کیلئے ٹیر رسٹ بنادیتا ہے۔
فلم یہ حصہ ” ڈارک “ بھی زیادہ ہے لیکن جیل جیسی جگہ پر بھی نائی والا سین سب کو ہنسنے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہیں راجو پی کے کی طرح سب کو ”رانگ نمبرز“ کا بھی بتاتے ہیں اور اس بار” رانگ نمبر“ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پی کے کو موقع دے کر” رانگ نمبرز“ کا بھانڈا پھوڑتے ہیں۔
سنجو کے دوست کو ہونے والی دھوکے یا غلط فہمی بھی ”پی کے“ کی طرح ہی دکھائی گئی ہے ۔ایک اچھا کردار کس طرح دنیا کے سامنے باپ کا سر بھی اٹھاتا ہے اور گاڑی کا شیشہ کھول کر دنیا کا سامنا بھی کرواتا ہے اس کا راز بھی فلم دیکھنے والوں کے سامنے ہی آئے گا۔
کہانی کے بعد اب بات فلم کے اداکاروں کی، سنجے دت کا کردار رنبیرکپور نے ادا کیا ہے۔ رنبیر کی فلمیں سپر ہٹ ہو یا فلاپ ان کی اداکاری لاجواب ہوتی ہے۔ راک اسٹار، تماشا اور جگا جاسوس سمیت وہ جو کردار ادا کرتے ہیں اس کو اپنے اوپر طاری کرلیتے ہیں۔
سنجے دت کا کردار ادا کرنا بڑے بڑے ہیروز کیلئے آسان نہیں ہوتا لیکن رنبیر کپور کو چھوڑ کر عامر خان ہی ایسے اداکار ہیں جو اپنی محنت سے کردار میں ڈھل جاتے ہیں اب چاہے اس میں دن لگے یا سال۔ عامر خان تو اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے سنجے نہیں بن سکتے تھے لیکن رنبیر کا قد کاٹھ بھی سنجے جیسا ہے اور شکل کے کافی ”فیچرز“ بھی۔
رنبیر نے مسلسل محنت کر کے نہ صرف اپنے جسم کو سنجے کی طرح بنایا، ان کی طرح بول چال کو اپنایا بلکہ سنجے کی روح کو اپنے اندر بسالیا باقی کام میک اپ آرٹسٹ اور کاسٹیوم ڈیزائنر نے پورا کردیا۔
ہر دور کا سنجے بننے کیلئے رنبیر اور راج کمار اینڈ ٹیم نے کتنی محنت کی ہوگی اس پر ایک کتاب بھی لکھی جائے تو کم ہوگا۔ ایک اور دلچسپ اتفاق کہ رنبیر اور سنجے دت دونوں اسٹار کڈز ہیں ایک نرگس جی اور سنیل دت کے بیٹے ہیں تو دوسرے رشی کپور اور نیتو سنگھ کے۔ دونوں کی گرل فرینڈز کی کہانی بھی لگ بھگ ایک ہی ہے۔
فلم دیکھتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے سامنے سنجے ہیں یا رنبیر۔ سنجو میں بطور اداکار رنبیر راک اسٹار سے بھی ایک قدم آگے چلے گئے ہیں۔ سنجو یقیناً ان کے کیریئر کی اب تک کی سب سے بڑی اور کامیاب فلم ہے۔
اداکار” وکی کوشل“ نے سنجے کے دوست کا کردار ادا کیا ہے، یہ کردار فلم میں سب کا سب سے پسندیدہ کردار ہے۔ اس کردار کا تلفظ لہجہ سب ” گھباگھب“ ہے، خاص طور پر ان کا ” شیکسپیئر“ کہنا برسوں یاد رکھا جائے گا۔
پاریش راول بھی سنیل دت کے کردار میں رچ بس گئے، وہ اداکار ہی اتنے بڑے ہیں کئی جگہ وہ فلم میں حالات سے ہار کر بھی ہمت نہیں ہارے اور چھا گئے۔ منیشا کوئرالہ نے نرگس جی کا کردار ادا کیا۔فلم میں ایک جھلک ہو لیکن ایسی ہو کہ برسوں یاد رہے تو فلم دیکھنے والوں کو کرشمہ ٹنا کی ”گلابی انٹری“ یاد رہے گی۔
بمن ایرانی فلم میں پاپا سے ڈیڈی، ڈیڈی سے انکل، انکل سے بڈھے تک بنے، ان کی اسپیشل اپیئرنس نے بھی سب کو خوب ہنسایا، سونم کپور جنھیں فلم سے پہلے ٹینا منیم کا کردار کہا جارہا تھا فلم میں بہت تھوڑی دیر کیلئے آئیں لیکن بہت خوبصورت نظر آئیں۔
فلم میں دونوں بڑے سیاستدان کچھ جانے مانے سیاست دانوں کی پرچھائیں تھے جنھیں لوگ آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔ فلم میں صحافی یا رائٹر کی ذمہ داری انوشکا شرما نے نبھائی ہے ان کی اداکاری کو بھی اسپیشل اپیئرنس کہا گیا ہے۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے آتی ہے لیکن دیا مرزا کی طرح فلم کے شروع سے آخر تک رہتی ہیں۔
فلم کا رومانٹک ”گنپت“ بھی سب کو یاد رہے گا، مہیش منجریکرکا بھی چھوٹا سا ”کیمیو“ ہے، جم ساربھ نے اس بار بھی منفی کردار میں چھاپ چھوڑ دی، وہ اس سے پہلے نیرجا، پدماوت اور رابطہ میں بھی یادگار منفی کردار نبھاچکے ہیں۔
ڈائریکٹر اور رائٹر راج کمار ہیرانی تو ہیں ہی”استادوں کے استاد“ خود اتنی محنت کرتے ہیں، اتنا ٹائم لگاتے ہیں، ایسا کام کرتے ہیں کہ بڑی سے بڑی مشکل بات آسانی سے چٹکی بجا کر سمجھا دیتے ہیں۔ منا بھائی سیریز، تھری ایڈٹس اورپی کے ایک ایک سین، مکالمے، کردار سب کو زبانی یاد ہیں۔
مسکراہٹ ہو یا آنسو ان کی فلمیں جذبات سے ’فُل‘ ہوتی ہیں دل فلم سے ایسا جُڑتا ہے کہ کبھی الگ نہیں ہوتا۔ فلم میں کتنی ہی متنازعہ بات ہو وہ ایسے پیش کی جاتی ہے کہ آٹھ سے اسی سال سب مَن لگا کر ان کی بات سنتے اور سمجھتے ہیں۔ ان کی ٹیم کمال کی ہے جن میں سب سے اوپر ان کے ساتھی رائٹر ابھیجات جوشی کا نام آتا ہے۔ وہ بالی وڈ کے واحد ہدایتکار ہیں جن کی پانچوں فلمیں نہ صرف باکس آفس پر سپر ہٹ ہوئیں بلکہ ان کو تنقیدی طور پر سراہا گیا۔
راجو کا کہنا ہے کہ سنجے کی کہانی پر زندگی بنانا آسان نہیں تھا کیونکہ سنجے ایسی شخصیت ہیں جن کو دنیا پہلے سے بہت اچھی طرح جانتی ہے۔ راجو کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ بھی تھا کہ وہ اپنی باقی فلموں کی طرح اس فلم میں وہ آزاد نہیں بلکہ محدود تھے کیونکہ ان کو سنجے کی زندگی کی باؤنڈری میں رہتے ہوئے کام کرنا تھا۔
سنجے دت کی زندگی بیک وقت اتنی مشکل اور خوبصورت ہے کہ انھیں بے شمار واقعات فلم کیلئے چھوڑنے پڑے۔ یہاں تک کہ فلم میں نہ سلمان ہیں نہ مادھوری، نہ سنجے گپتا ہیں نہ مہیش بھٹ یہاں تک کہ سنجے کے دوست اور بہنوئی کمار گورو کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
ہاں شاہ رخ اور عامر کا ذکرموجود ہے جب سنجو اپنے والد سے ان دونوں ہیروز کی حکمرانی کی شکایت کرتا ہے، اب ظاہر ہے یہ فلم سنجو کی وجہ سے ہی بننی تھی راجو نے اس فلم میں بہت سارے تنازعات کو چھوا بھی نہیں کیونکہ انھیں ”بیلنس“ کرنا یقینا نا ممکن ہوجاتا ۔
راجو اور سنجو کی دوستی بہت پرانی ہے، شاہ رخ نے اپنی کمر کے درد کی وجہ سے منا بھائی چھوڑی تھی اور اس کے بعد سنجے دت ایسے منا بھائی بنے کہ راجو نے انھیں اپنی اب تک چار میں تین فلموں میں کاسٹ کیا اور پانچویں سنجے بنا کر کیا۔
ذرا سوچیئے اگر شاہ رخ منا بھائی ہوتے تو کیا سنجو بنتی؟ اس فلم میں بھی بمن ایرانی ہیں جی ہاں !تھری ایڈیٹس کے ”وائرس“ یعنی بمن ایرانی اب تک واحد ایسے اداکار ہیں جو راجو کی ہر فلم میں موجود تھے بلکہ اس فلم میں ان کا ڈبل رول بھی کہا جاسکتا ہے۔ فلم میں گانے بہت کم ہیں اور آخر میں ایک سرپرائز سانگ بھی لیکن ’ہر میدان فتح‘ سب سے بہتر گانا ہے۔
فلم کے مکالمے زوردار اور زندگی سے بھرپور ہیں ان کے یہاں لکھنے سے ریویو کی شان بڑھ جائے گی لیکن شاید مکالموں کی آن ہوجائے گی تو ان کو اداکاروں کی زبانی سنیئے اور خوب مزا کیجیئے۔
سنجو آسانی سے راج کمار ہیرانی کی سب سے کامیاب اوپننگ والی فلم ہے بلکہ یہ اب تک کی سب سے کامیاب اوپننگ والی بالی وڈ فلم بن چکی ہے وہ بھی کسی تہوار کی مدد کے بغیر، یہ یقینا رنبیر کپور کی اب تک کی سب سے کامیاب فلم ہوگی، اس فلم کا کروڑوں کی ڈبل سینچری دس دن میں کرنا طے ہے۔
کمرشلی اس فلم کا چیلنج راجو ہی کی ’پی کے‘ کے ریکارڈ کو توڑنا ہوگا۔ فلم یقینا تین سو کروڑ کے بزنس کیلئے بھی تیار ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سنجو میں راجو بہت ”سیو“ کھیلے انھوں نے تنازعات کو اس طرح نہیں چھیڑا جس طرح ”پی کے “ میں چھیڑا۔
سنجو کو انھوں نے بالآخر ہیرو بنادیا، راجو مادھوری سے ڈر گئے، راجو سلمان سے ڈر گئے۔ اب جس فلم میں کمار گورو کی جگہ نہیں بنی سنجے کی پہلی دونوں بیویوں کی نہیں بنی، پہلی بیٹی کی نہیں بنی اس میں اور کسی کی جگہ کیسے بنتی۔
راجو کیلئے بہت آسان تھا مادھوری اور سلمان کی کنٹروسی کو مصالحہ لگا کر فلم ہٹ کرنا لیکن انھوں نے اپنے حساب سے سنجو کی زندگی کے چیپٹرز کو چُنا اور انھیں اپنے رنگ سے امر کردیا۔ ویسے بھی راجو خود اسی فلم میں کہہ گئے ہر بات کا جواب ضروری نہیں کیونکہ ” کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا “۔
نوٹ :
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔
2۔۔ ہر فلم سنیما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سنیما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے۔ فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سنیما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے، جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں، آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔
6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں۔ بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔
7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا، ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دو گھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔