Time 05 جولائی ، 2018
بلاگ

انتخاب سے پہلے احتساب کیوں نہیں کرتے!

11 مئی 2013 کے عام انتخابات کے دن خواتین ایک پولنگ اسٹیشن پر قطار میں کھڑی ہیں—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

پانی نہیں آرہا، تنخواہ نہیں بڑھ رہی، نوکری نہیں مل رہی، بجلی نہیں ہے، گھر سے باہر نکلتے ہیں تو سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، گٹر ابل رہے ہیں، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہیں، نہ تعلیم اچھی مل رہی ہے اور نہ ہی صحت کی بہتر سہولیات موجود ہیں لیکن ووٹ پھر بھی اپنے لیڈر کو ہی دینا ہے، کچھ بھی ہوجائے اقتدار میں اپنی پارٹی کو ہی لانا ہے، ہمیں منزل نہیں رہنما ہی چاہیے، بھٹو کے نام کو زندہ رکھنا ہے، شیر کو آگے لانا ہے، نیا پاکستان بنانا ہے، ملک میں اسلامی انقلاب لانا ہے۔

 وہ سب تو ٹھیک ہے مگر یہ تو بتائیں کہ ان سب نعروں کے ذریعے کیا آپ کے بچے اچھی تعلیم حاصل کرسکے ہیں؟ کیا علاج کی بہتر سہولیات مل رہی ہیں؟کیا گلیاں صاف ہوگئی ہیں؟نلکوں میں پانی آرہا ہے؟ بجلی ہر وقت موجود ہے؟ کیا معاشرے سے جرائم ختم ہوگئے ہیں اور کیا مظلوموں کو بروقت انصاف مل رہا ہے؟

اگر ان سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو پھر 'اپنی پارٹی' اور 'اپنا لیڈر' کی گردان کیوں کرتے ہیں؟ انتخاب سے پہلے احتساب کیوں نہیں کرتے؟ کیوں اسلام سے پہلے کے دور کی یادیں تازہ کراتے ہو کہ اگر ایک صادق اور امین دعوت دے رہا ہے تو اس پر ایمان نہیں لا ئیں گے، جوا بھی کھیلیں گے، لڑکیوں کو قتل بھی کریں گے، غریبوں کا مال بھی ہڑپ کر جائیں گے، مگر ساتھ ابو جہل کا ہی دیں گے!

جن مکانوں کو خریدنے کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے اُن کوٹھیوں اور بنگلوں کی قیمتیں یہ لوگ 120 گز کے مکان کی قیمت سے بھی کم بتاتے ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ ان بااثر لوگوں کی اوطاقوں میں لوگوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے اور کھیتوں میں کام کرنے والے ہاریوں کو مکمل معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔ گاؤں، دیہاتوں میں رہنے والے سادہ لوح لوگوں کو 'تعلیم' جیسی عیاشی بھی دستیاب نہیں، وہاں سوال نہیں کیا جا سکتا، بس حکم کی تعمیل کی جاتی ہے۔ کسی وڈیرے جاگیردار کے کھیتوں کی طرف جانے والے ندی نالوں سے پانی نکالنے والوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، جوان لڑکیوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے، مگر آپ یقین نہیں کریں گے کہ ان لوگوں کو انصاف ملنا دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے، مگر کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔

کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے ووٹوں سے اقتدار میں جانے والوں کے کتنے اثاثے بنے ہیں؟ ان سیاستدانوں کے بچے کہاں پڑھتے ہیں؟ اگر یہ لوگ بیمار ہوجائیں تو علاج کے لیے لندن اور امریکا کیوں جاتے ہیں؟ اگر نہیں سوچا تو پھر آج سوچ لیجئے کہ ایسا کیوں ہے۔ کیا ہم سب ذہنی غلام ہیں؟ کیا ہم دور جاہلیت میں جی رہے ہیں؟ کیا ہمارے بچوں کو جینے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ہماری سڑکیں بھی کشادہ ہوں اور گھروں کے باہر صفائی کے انتظامات بھی بہتر ہوں؟ ہمارے بچے بھی اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کرسکیں؟ اور کیا صحت کی بنیادی سہولیات پر ہمارا کوئی حق نہیں؟

اگر یہ سب چاہتے ہیں تو پھر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا سیکھیں۔ انتخاب سے پہلے احتساب کرنا سیکھیں۔ فیصلہ کرلیں کہ کون ہمارے حق میں بہتر ہے اور کون نہیں۔ کون ہے جو ہمارے لیے لڑنا چاہتا ہے اور کون ہے جو ہمارے لیے جینا چاہتا ہے۔یقیناً آپ چاہتے ہوں گے کہ کوئی ایسا شخص ہم پر حکومت کرے ، جو ہمارے جیسا ہو، جس کے بچے بھی ہمارے بچوں کی طرح گلیوں میں کھیلتے کودتے ہوں، جو ہمارے بچوں کے جیسے اسکولوں میں پڑھتے ہوں اور جو اپنے علاج کے لیے لندن امریکا جانے کے بجائے اسی ملک میں علاج کرانے کو ترجیح دیتا ہو۔

اگر یہ سب چاہتے ہیں اور ملک کا نظام بدلنے کے خواہشمند ہیں تو پھر اپنے حق کے لیے اٹھیں، سوچنا کیسا؟ بس فیصلہ کریں اور نظام بدلنے کی ٹھان لیں۔ اپنے ووٹ کے صحیح استعمال سے اپنے کل کو بدلنے کی کوشش کریں۔ اگر ووٹ کا استعمال صحیح نہیں کرسکتے تو پھر سوال کریں اور اس کا جواب خود تلاش کریں کہ کیا ہم دور جاہلیت میں جی رہے ہیں ۔۔۔؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔