05 جولائی ، 2018
اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے اسٹیل ملز کی زمین کی فروخت اور کراچی کے تین مختلف بینکوں میں بنائے گئے 29 اکاؤنٹس میں ہیرا پھیری کی تحقیقات شروع کردی ہیں، اس طرح منی لانڈرنگ کے ایک نئے اسکینڈل کے منظر عام پر آنے سے سیاسی ہلچل پیدا ہونے کا امکان ہے۔
دی نیوز کے سینیئر صحافی عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے تین مختلف بینکوں میں بنائے گئے ان 29 اکاؤنٹس کو غیر قانونی لین دین کے لیے استعمال کیا گیا اور لین دین کے لیے ایک مشکوک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں بھاری رقوم منتقل کرنے اور اسے چھپانے کی کوشش کی گئی، یعنی رقم کی ادائیگی تو اصل اکاؤنٹ سے کی جا رہی تھی لیکن اسے مختلف جعلی اکاؤنٹس سے گھما پھرا کر مطلوبہ افراد تک پہنچایا جا رہا تھا۔
تاہم ایف آئی اے نے رقم ادا یا وصول کرنے والوں کی نشاندہی کرلی ہے۔
ان کاؤنٹس کے ذریعے سندھ حکومت کے مختلف ٹھیکیدار، پراپرٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا نام، شوگر ملز، سیاسی اہمیت کے حامل ایک گھر کا پروٹوکول افسر، 58 ایکڑ زمین کا ایک خریدار اور دیگر لوگ رقوم بھجوانے والوں میں شامل ہیں۔
زمین فروخت کرنے والا شخص ضلع ملیر میں ایک سیاسی جماعت کا صدر ہے، جس نے پاکستان اسٹیل ملز کے بارے میں خریدار کو اندھیرے میں رکھا، لیکن اس نے اب اپنی زمین کی واپسی کے لیے سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
اب تک رقم سے فائدہ اٹھانے والے جن افراد کی شناخت ہوئی ہے، ان میں ایک سینئر سیاسی رہنما، ان کے دو قریبی ساتھی (ایک کاروباری شخصیت اور ایک غیر ملکی شہری جو پاکستان کے ایک بینک کے چیئرمین بھی ہیں اور انہیں اس لین دین کے لیے استعمال کیا گیا ہے) شامل ہیں۔
طارق سلطان نامی شخص کے نام پر بنائے گئے اکاؤنٹ کے ذریعے 3.04 ارب روپے بینک کے چیئرمین کو منتقل کیے گئے، 293.78 ملین روپے کاروباری شخص (طارق سلطان اس کا ملازم ہے) کو منتقل کیے گئے، 10.50 ملین روپے سیاسی رہنما کو جبکہ 2.20 ارب روپے 6 دیگر مشکوک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے۔ مذکورہ بینک اکاؤنٹس میں سے 490.26 ملین روپے نقد نکلوائے گئے اور ایک ٹریول ایجنٹ کو 25 ملین روپے کی ادائیگی بھی کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے کراچی کے ایک تاجر کے پاس ملازم طارق سلطان کو جب ایف آئی اے کے تفتیش کاروں نے بتایا کہ اس کی ایک کمپنی ہے، جس کا نام 'اے ون انٹرنیشنل' ہے اور کمپنی کے تین بینکوں میں پانچ اکاؤنٹس بھی ہیں، جو 8 ارب روپے کی مشکوک لین دین کے لیے استعمال کیے گئے، جس پر طارق سلطان نے جواب دیا کہ 'اس نے آج تک ایک عرب شہری کو نہیں دیکھا، 8 ارب روپے تو دور کی بات ہے'۔
طارق سلطان کی طرح ارم عقیل نامی خاتون کے نام سے بھی ایک اکاؤنٹ بنایا گیا، جو مبینہ طور پر ابراہیم لنکرز نامی کمپنی کی مالک ہیں، ارم عقیل نے بھی کسی کمپنی اور ایسے اکاؤنٹ سے لاتعلقی ظاہر کی جس سے ایک ارب روپے سے زائد کا لین دین کیا گیا۔
انکوائری کب شروع ہوئی؟
یہ انکوائری اُس وقت شروع ہوئی جب اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے 10 مختلف بینک اکاؤنٹس سے رواں سال جنوری میں مشکوک لین دین کی رپورٹ جاری کی، ان میں سے چار اکاؤنٹس ایک ہی بینک کے تھے۔
جیسے ہی تحقیقات کا آغاز ہوا، ایف آئی اے نے 19 دیگر بینک اکاؤنٹس کا بھی پتہ لگایا جو ان 10 مشکوک بینک اکاؤنٹس کے ساتھ جڑے تھے۔ یہ تمام 29 بینک اکاؤنٹس سات افراد کے مبینہ کاروبار کے نام پر استعمال ہو رہے ہیں۔
ایف آئی اے کے مطابق سمٹ بینک میں 16، سندھ بینک میں 8 جبکہ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ میں 5 اکاؤنٹس کی اسکروٹنی جاری ہے۔
ان چار میں سے ایک اکاؤنٹ طارق سلطان کی مبینہ کمپنی اے ون انٹرنیشنل، ایک عدنان جاوید نامی شخص کی کمپنی لکی انٹرنیشنل، اقبال آرائیں نامی ایک شخص کی اقبال میٹل نامی کمپنی اور ایک اور شخص محمد عمیر کی مبینہ کمپنی عمیر ایسوسی ایٹس کے نام پر کھولے گئے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق دیئے گئے پتے پر سوائے طارق سلطان کے کسی اور کا سراغ نہیں ملا۔ دیگر 6 اکاؤنٹس رویال انٹرپرائزز، الفا زُولو (پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاجسٹک ٹریڈنگ، ابراہیم لنکرز، ایگرو فارمز ٹھٹّہ اور پارتھینون (پرائیوٹ) لمیٹڈ کے ہیں۔
واضح رہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے گھاٹے میں جانے والے سمٹ بینک کو سندھ بینک میں ضم کرنے کی کوشش کو اُس وقت ناکام بنایا تھا جب سمٹ بینک کے ایک شیئر ہولڈر نے عدالت سے رجوع کیا۔
ایف آئی اے کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بینکاروں اور چین کے بروکرز کے بیانات کے مطابق اس تفتیش میں مرکزی حیثیت کے حامل ایک کاروباری شخص کے دو سینئر ایگزیکٹوز عارف خان اور اسلم مسعود یہ اکاؤنٹس چلا رہے تھے اور انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ ان اکاؤنٹس میں کریڈٹ ادائیگی کریں۔
ایف آئی اے کی انکوائری میں اسلم مسعود کو سمٹ بینک کے سابق صدر حسین لوائی کا قریبی دوست بتایا گیا ہے۔ حسین لوائی کو حال ہی میں بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا جبکہ مذکورہ کاروباری شخص پہلے ہی ملک سے روانہ ہو چکا ہے۔
ان اکاؤنٹس میں رقم کریڈٹ کرنے والے شخص میسرز العصر کنسٹرکشن اینڈ بلڈرز کے امان اللہ میمن سے ایف آئی اے نے انٹرویو کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بن قاسم ٹاؤن میں میسرز الاقصیٰ بلڈرز اینڈ ڈویلپرز، جس کے مالک ایک سیاسی جماعت کے ملیر چیپٹر کے نائب صدر شیخ عدیل اختر ہیں، سے ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر احسان اللہ کے ذریعے 2 جون 2014 کو کیے گئے معاہدہ فروختگی کے تحت 58 ایکڑ زمین خریدی۔ انہوں نے عمیر ایسوسی ایٹس کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی، اب اس زمین پر اسٹیل ملز نے دعویٰ کیا ہے اور سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے۔