الیکشن 2018: سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا گراف کیا رہا؟

عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف، ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور مذہبی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں؟

کسی بھی ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو ملنے والے مجموعی ووٹوں سے ملک کی مقبول ترین جماعت کا تعین ہوتا ہے اور ان ووٹوں کو انگریزی میں (Popular Votes) کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جو جماعت سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے وہی ملک میں مقبول ترین جماعت بھی ہوتی ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہی ہو۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق عام انتخابات میں ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار تھی جبکہ مجموعی طور پر ووٹر ٹرن آؤٹ 51 اعشاریہ 82 فیصد رہا۔ اس حساب سے پورے پاکستان میں 5 کروڑ 49 لاکھ 8 ہزار 472 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

ہر ووٹر عام طور پر دو (ایک صوبائی اسمبلی اور ایک قومی اسمبلی کے امیدوار کو) ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ممکن ہے کہ ووٹر قومی اور صوبائی اسمبلی پر ایک ہی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے یا پھر قومی پر الگ اور صوبائی پر الگ جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے دے۔

الیکشن 2018 میں ووٹرز ٹرن آؤٹ اور نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے بہت سے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔

ن لیگ سے پاکستان کی مقبول ترین جماعت کا اعزاز چھِن گیا

عام انتخابات 2018 پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے علاوہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اعتراضات اٹھارہی ہیں تاہم ان اعتراضات سے قطع نظر پی ٹی آئی پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔

ملک بھر سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی پر ملنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد ن لیگ کو ملنے والے مجموعی ووٹوں سے تقریباً 39 لاکھ 53 ہزار 485 ووٹ زیادہ ہے۔ اس حساب سے پی ٹی آئی قومی سطح پر پاکستان میں ووٹرز کی مقبول ترین جماعت بن کر ابھری ہے۔

2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن پاکستان کی مقبول ترین جماعت تھی اور اس نے مجموعی طور پر 1 کروڑ 48 لاکھ 74 ہزار 104 ووٹ حاصل کیے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف ووٹرز کی دوسری پسندیدہ ترین جماعت تھی لیکن اس نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے کم نشستیں حاصل کی تھیں۔ تحریک انصاف نے 2013 میں مجموعی طور پر 76 لاکھ 79 ہزار 954 ووٹ حاصل کیے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2013 میں دو مقبول ترین جماعتوں کے درمیان حاصل کردہ ووٹوں کا فرق 71 لاکھ 94 ہزار 150 تھا جبکہ 2018 کے الیکشن میں دو مقبول ترین جماعتوں کے درمیان حاصل کردہ ووٹوں کا فرق صرف 39 لاکھ 53 ہزار 485 رہا۔




1- پاکستان تحریک انصاف

اعداد و شمار کے مطابق عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف ہر اعتبار سے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ آزاد امیدواروں سے قطع نظر (جن کی تعداد پورے پاکستان میں تقریباً 1600 تھی) تحریک انصاف ملک بھر میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر سب سے زیادہ امیدوار کھڑے کرنے والی جماعت تھی جس نے اپنے 242 کھلاڑی میدان میں اتارے۔

242 میں سے تحریک انصاف کے 116 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی یعنی تحریک انصاف کے امیدواروں کی جیت کا تناسب 47.93 فیصد رہا۔

تحریک انصاف کو پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کے لیے مجموعی طور پر ایک کروڑ 68 لاکھ 60 ہزار 675 ووٹ ملے اور اس طرح تحریک انصاف ان انتخابات میں ووٹرز کی پسندیدہ ترین جماعت رہی۔ قومی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے کُل ووٹوں میں تحریک انصاف کا حصہ 30.70 فیصد رہا۔

2013 میں تحریک انصاف نے صرف 29 قومی نشستیں حاصل کی تھیں اور اس بار پی ٹی آئی کی قومی نشستوں کی تعداد 116 ہوگئی ہیں یعنی اس کی 87 سیٹیں بڑھی ہیں۔

2- پاکستان مسلم لیگ ن

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قومی سطح پر سابقہ حکمران جماعت کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور پورے پاکستان سے ن لیگ کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر 1 کروڑ 29 لاکھ 35 ہزار 236 ووٹ ملے۔ ن لیگ نے پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر مجموعی طور پر 212 امیدوار کھڑے کیے جن میں سے صرف 64 امیدوار کامیاب ہوئے اور اس طرح ن لیگ کی کامیابی کا تناسب 30.18 بنتا ہے۔ قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ن لیگ کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 23.50 رہا۔

2013 کے عام انتخابات میں ن لیگ نے قومی اسمبلی سے 126 نشستیں حاصل کی تھیں یعنی الیکشن 2018 میں ن لیگ نے تقریباً نصف (62) نشستیں گنوائی ہیں لیکن اس کے باوجود ن لیگ قومی سطح پر ووٹرز کی دوسری مقبول ترین جماعت رہی۔

3- پاکستان پیپلز پارٹی

الیکشن 2018 میں جس جماعت نے توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پیپلز پارٹی قومی سطح پر پاکستان کی تیسری مقبول ترین جماعت رہی اور اسے مجموعی طور پر 69 لاکھ 13 ہزار 410 ووٹ پڑے۔

پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 270 نشستوں کے لیے پاکستان بھر میں 243 امیدوار کھڑے کیے جن میں سے صرف 43 امیدوار کامیاب ہوئے اس طرح قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کا تناسب صرف 17 فیصد رہا۔قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 12.59 رہا۔

پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کے مقابلے میں 99 لاکھ 49 ہزار 565 ووٹ جبکہ ن لیگ کے مقابلے میں 59 لاکھ 94 ہزار 681 ووٹ کم ملے ہیں۔


پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن 2018 گزشتہ الیکشن سے بہتر ثابت ہوئے کیوں کہ پیپلز پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 35 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں تاہم اس بار اس کی جنرل نشستوں میں 9 سیٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2013 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد 2018 الیکشن کے تقریباً برابر ہی ہیں۔ 2013 میں پیپلز پارٹی نے 69 لاکھ 11 ہزار 218 ووٹ حاصل کیے تھے اور 35 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ اس بار اس نے 69 لاکھ 13 ہزار 410 ووٹ لے کر 43 نشستیں اپنے نام کرلی ہیں۔

4- آزاد امیدوار

پاکستان کی سیاست میں آزاد امیدواروں کا کردار ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے اور انہیں ’بادشاہ گر‘ کہا جاتا ہے۔ آزاد امیدوار کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا اپنا ووٹ بینک ہوتا ہے اور کامیابی کے بعد وہ عام طور پر اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

الیکشن 2018 میں آزاد امیدواروں نے پاکستان بھر سے 60 لاکھ 60 ہزار 894 ووٹ حاصل کیے۔ 2013 کے عام انتخابات میں آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پر 58 لاکھ 80 ہزار 658 ووٹ حاصل کیے تھے۔

 گزشتہ انتخابات کی نسبت آزاد امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں میں تو 2 لاکھ سے زائد کا اضافہ ہوا ہے تاہم قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ 2013 میں 30 آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی تاہم اس بار کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی تعداد صرف 13 ہے جوکہ جمہوریت کے لیے خوش آئند ہے۔ اس بار ووٹرز نے انفرادی شخصیات کے بجائے سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو ووٹ دیے ہیں۔

قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں آزاد امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 11.03 فیصد رہا۔

5- متحدہ مجلس عمل

دینی جماعتوں کا سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) پاکستان کی پانچویں مقبول ترین جماعت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ عام انتخابات میں ایم ایم اے کو تقریباً 25 لاکھ 69 ہزار 971 ووٹ ملے ہیں اور وہ قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں تمام دینی و مذہبی جماعتوں نے انفرادی طور پر حصہ لیا تھا اس لیے ان کا ووٹ بینک تقسیم ہوگیا تھا۔

قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ایم ایم اے کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 4.60 فیصد رہا۔

6- تحریک لبیک پاکستان

سیاست کے میدان میں موجود دینی جماعتوں کی فہرست میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نومولود ہے تاہم اسے پڑنے والے ووٹوں کی تعداد نے سب کو حیران کردیا ہے۔ ٹی ایل پی نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کیلئے اسے مجموعی طور پر 22 لاکھ 34ہزار 338 ووٹ ملے۔قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ٹی ایل پی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 4.06 فیصد رہا۔

حیران کن طور پر قومی سطح پر پاکستان میں ووٹرز کی چھٹی مقبول ترین جماعت ہونے کے باوجود تحریک لبیک پاکستان قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکی۔ تاہم آنے والے وقت میں ٹی ایل پی کا ووٹ بینک مزید بڑھ سکتا ہے۔




7- گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس

اندرون سندھ میں بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے وجود میں آنے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی، قومی عوامی تحریک، سندھ نیشنل فرنٹ اور دیگر قوم پرست جماعتیں شامل تھیں۔ قومی سطح پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ساتویں مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے 11 لاکھ 93 ہزار 444 ووٹ حاصل کیے ہیں۔

قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں جی ڈی اے کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 2.17 فیصد رہا۔

گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس قومی اسمبلی کی 2 نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی اور ممکن ہے کہ وہ وفاقی حکومت میں اتحادی بن جائے۔

8- عوامی نیشنل پارٹی

قومی اسمبلی میں حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے عوامی نیشنل پارٹی پاکستان کی 8 ویں مقبول ترین جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ 2008 کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے والی عوامی نیشنل پارٹی 2013 اور اب 2018 کے انتخابات میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھاسکی۔

الیکشن 2018 میں اے این پی نے مجموعی طور پر 8 لاکھ 15 ہزار 993 ووٹ حاصل کیے اور قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل کرسکی۔قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں آزاد امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 1.48 فیصد رہا۔

9- متحدہ قومی موومنٹ پاکستان

الیکشن 2018 میں جتنا نقصان متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کو ہوا ہے شاید کسی اور جماعت کو نہیں ہوا۔ ایک دور میں صرف کراچی سے جیت کر پاکستان کی چوتھی بڑی جماعت بننے والی ایم کیو ایم اس بار صرف 6 نشستوں تک محدود ہوگئی ہے۔

قومی اسمبلی کے لیے حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے ایم کیو ایم پاکستان اب پاکستان کی 9 ویں مقبول ترین جماعت بن گئی ہے تاہم حاصل کردہ ووٹوں اور نشستوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم پاکستان صرف 7 لاکھ 31 ہزار 794 ووٹ لے کر بھی قومی اسمبلی کی 6 نشستیں جیت گئی ہے جبکہ تحریک لبیک پاکستان ، جی ڈے اے اور عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم کے مقابلے زیادہ ووٹ لینے کے باوجود نشستوں کے معاملے میں اس سے پیچھے ہیں۔

قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 1.33 فیصد رہا۔

10- پاکستان مسلم لیگ (ق)

2002 کے عام انتخابات کے بعد حکومت میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ (ق) اب محض چند حلقوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ الیکشن 2018 میں ق لیگ کو مجموعی طور پر 5 لاکھ 17 ہزار کے قریب ووٹ ملے تاہم کم ووٹ ملنے کے باوجود وہ قومی اسمبلی کی 4 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی اور یوں وہ 10 ویں مقبول ترین جماعت رہی۔

قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ق لیگ کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب صرف 0.94 فیصد رہا۔


سندھ : پیپلز پارٹی کی مقبولیت برقرار

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق سندھ میں اس بار رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 23 لاکھ 90 ہزار تھی جبکہ عام انتخابات میں صوبے میں ووٹر ٹرن آؤٹ 47.6 فیصد رہا یعنی اس حساب سے تقریباً ایک کروڑ 6 لاکھ 57 ہزار 640 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

1- پیپلز پارٹی

صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی بدستور مقبول ترین جماعت ہے۔ الیکشن 2018 میں پیپلز پارٹی کو سندھ سے مجموعی طور پر 38 لاکھ 57 ہزار 346 ووٹ ملے۔2013 میں سندھ سے پیپلز پارٹی کو 32 لاکھ 9 ہزار 686 ووٹ اور  69 صوبائی نشستیں ملی تھیں جو اس بار بڑھ کر 77 ہوگئی ہیں۔

سندھ میں صوبائی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 36.19 فیصد رہا۔

2- گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس

سندھ کی دوسری مقبول ترین جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس رہی جس نے مجموعی طور پر 14 لاکھ 89 ہزار 573 ووٹ حاصل کیے، جی ڈی اے نے سندھ سے صوبائی اسمبلی کی 10 نشستیں بھی حاصل کیں۔

سندھ میں صوبائی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے جی ڈی اے کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 13.97 فیصد رہا۔


3- پاکستان تحریک انصاف

سندھ میں تحریک انصاف حاصل کردہ ووٹوں کے حساب سے تیسری مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی۔ تحریک انصاف نے سندھ سے 14 لاکھ 24 ہزار 605 ووٹ حاصل کیے۔ پی ٹی آئی نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے تقریباً 66 ہزار ووٹ کم لیے ہیں لیکن نشستیں جی ڈے اے سے کہیں زیادہ حاصل کی ہیں۔تحریک انصاف نے سندھ کی 23 صوبائی نشستیں حاصل کیں حالانکہ 2013 میں پی ٹی آئی سندھ سے صرف 3 صوبائی سیٹیں جیت سکی تھی۔

سندھ میں صوبائی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 13.35 فیصد رہا۔


4- متحدہ قومی موومنٹ پاکستان

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو 2013 کے عام انتخابات میں سندھ کی دوسری مقبول ترین جماعت تھی اس بار چوتھے نمبر پر چلی گئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان سندھ میں مجموعی طور پر 7 لاکھ 44ہزار 322 ووٹ لے سکی ہے۔ سندھ سے ایم کیو ایم کو 16 صوبائی نشستیں حاصل ہوئی ہیں حالانکہ 2013 میں ایم کیو ایم 25 لاکھ 10 ہزار 853 ووٹ لے کر دوسری مقبول ترین جماعت رہی تھی اور سندھ سے 38 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

سندھ میں صوبائی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 6.98 فیصد رہا۔

نوٹ: سندھ میں آزاد امیدواروں کو 7 لاکھ 63 ہزار 621 ووٹ ملے

پنجاب اسمبلی : ووٹ تحریک انصاف اور نشستیں ن لیگ کی زیادہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پنجاب میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 6 لاکھ 70 ہزار ہے جبکہ عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 58.3 فیصد رہا یعنی 3 کروڑ 53 لاکھ 70 ہزار 610 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ان میں سے زیادہ ووٹ تو تحریک انصاف کے حصے میں آئے لیکن نشستوں کے معاملے میں ن لیگ آگے رہی۔

1- پاکستان تحریک انصاف

آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف نے مقبولیت میں دیگر تمام جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کو مجموعی طور پر 1 کروڑ 11 لاکھ 65 ہزار 976 ووٹ ملے ہیں البتہ یہ 2013 میں ن لیگ کو ملنے والے ووٹوں سے تقریباً 2 لاکھ کم ہیں۔ 2013 میں پی ٹی آئی نے صوبے سے 49 لاکھ 51 ہزار 216 ووٹ لیے تھے جبکہ ن لیگ کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ایک کروڑ 13 لاکھ 65 ہزار 363 تھی۔

الیکشن 2018 میں تحریک انصاف نے پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی 123 نشستیں حاصل کی ہیں حالانکہ 2013 میں وہ صرف 20 نشستیں حاصل کرسکی تھی۔

پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک انصاف کے حصے میں 31.56 فیصد ووٹ آئے۔



2- پاکستان مسلم لیگ (ن)

حاصل کردہ نشستوں کے حساب سے دیکھیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) اب بھی پنجاب کی مقبول ترین جماعت ہے تاہم اسے تحریک انصاف سے کم ووٹ ملے ہیں۔ صوبے بھر سے ن لیگ کو 1 کروڑ 5 لاکھ 30 ہزار 766 ووٹ ملے ہیں اور یوں وہ پنجاب کی مقبول ترین جماعت کا اعزاز کھوکر دوسرے نمبر پر آگئی ہے۔ 2013 میں ن لیگ کو پنجاب سے ایک کروڑ 13 لاکھ 65 ہزار 363 ووٹ ملے تھے اور وہ مقبول ترین جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔

عام انتخابات میں ن لیگ پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی 129 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ نے پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی 213 نشستیں حاصل کی تھیں۔

پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ن لیگ کے حصے میں 29.77 فیصد ووٹ آئے۔



3- تحریک لبیک پاکستان

صوبہ پنجاب میں تحریک لبیک پاکستان کی مقبولیت میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے پنجاب سے 18 لاکھ 87 ہزار 913 ووٹ لیے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ٹی ایل پی پنجاب سے قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے۔ ٹی ایل پی نے صوبائی اسمبلی کی محض 2 نشستیں حاصل کی ہیں اور وہ دونوں نشستیں اسے سندھ سے ملی ہیں۔ سندھ میں تحریک لبیک کو 4 لاکھ 8 ہزار 29 ووٹ ملے۔

پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک لبیک پاکستان کے حصے میں 5.33 فیصد ووٹ آئے۔

نوٹ: پنجاب میں آزاد امیدواروں کو 61 لاکھ 86 ہزار 779 ووٹ ملے

خیبر پختونخوا : تحریک انصاف کی مقبولیت میں مزید اضافہ

الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 53 لاکھ 20 ہزار ہے جبکہ انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 45.5 فیصد رہا یعنی 69 لاکھ 70 ہزار 600 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔


1- پاکستان تحریک انصاف

صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ کے پی کے میں اس بار تحریک انصاف کو ملنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد 21 لاکھ 32 ہزار 517 ہے۔ 2013 میں پی ٹی آئی کو صوبے سے 10 لاکھ 39 ہزار 719 ووٹ ملے تھے یعنی اب پی ٹی آئی کی مقبولیت دوگنی ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف نے کے پی کے سے صوبائی اسمبلی کی 65 نشستیں حاصل کیں، 2013 میں اس نے صوبائی اسمبلی کی 35 نشستیں حاصل کی تھیں اور مخلوط حکومت بنائی تھی۔

خیبر پختونخوا میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک انصاف کو 30.59 فیصد ووٹ ملے۔


2- متحدہ مجلس عمل

خیبر پختونخوا میں 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن دوسری مقبول ترین جماعت بن کر ابھری تھی تاہم اس بار دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ ایم ایم اے کو کے پی کے سے مجموعی طور پر 11 لاکھ 27 ہزار 707 ووٹ ملے اور وہ صوبے کی دوسری مقبول ترین جماعت رہی۔

ایم ایم اے نے عام انتخابات میں کے پی کے اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کی ہیں۔ 2013 میں متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے علیحدہ علیحدہ الیکشن لڑا تھا۔خیبر پختونخوا میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایم ایم اے کو 16.17 فیصد ووٹ ملے۔


3- عوامی نیشنل پارٹی

عوامی نیشنل پارٹی صوبہ خیبر پختونخوا کی تیسری مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ اے این پی نے اس بار صوبے سے مجموعی طور پر 8 لاکھ 4 ہزار 824 ووٹ حاصل کیے جبکہ 2013 میں اسے 5 لاکھ 56 ہزار 525 ووٹ ملے تھے۔ الیکشن 2018 میں عوامی نیشنل پارٹی کو کے پی کے اسمبلی کی صرف 7 نشستیں ملی ہیں۔

2013 میں اے این پی نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی صرف 4 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ خیبر پختونخوا میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے اے این پی کو 11.54 فیصد ووٹ ملے۔

نوٹ: خیبر پختونخوا میں آزاد امیدواروں کو 9 لاکھ 31 ہزار 761 ووٹ ملے

بلوچستان : قوم پرست جماعتیں مقبولیت میں آگے

الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 43 لاکھ تھی جبکہ انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 45.3 فیصد رہا یعنی 19 لاکھ 47 ہزار 900 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

1- بلوچستان عوامی پارٹی

سندھ اور بلوچستان وہ دو صوبے ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف مقبول ترین جماعت نہیں بن سکی ہے اور ان صوبوں میں قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت برقرار ہے۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ اس نے صوبے سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 46 ہزار 795 ووٹ حاصل کیے۔ 2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا تاہم اس بار اس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔

الیکشن 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی 4 اور صوبائی اسمبلی کی 15 نشستیں حاصل کیں اور یہ تمام سیٹیں اس نے بلوچستان سے ہی نکالی ہیں۔

بلوچستان اسمبلی کیلئے میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے بلوچستان عوامی پارٹی کو 22.93 فیصد ووٹ ملے۔



2- متحدہ مجلس عمل

دینی جماعتوں کا سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل بلوچستان میں بھی دوسری مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ ایم ایم اے نے بلوچستان سے 2 لاکھ 71 ہزار 498 ووٹ حاصل کیے۔ ایم ایم اے کو صوبائی اسمبلی کی 8 نشستیں بلوچستان سے ملیں۔

بلوچستان اسمبلی کیلئے میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایم ایم اے کو 13.93 فیصد ووٹ ملے۔


3- بلوچستان نیشنل پارٹی

صوبے میں حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے تیسری مقبول ترین جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) رہی جس نے مجموعی طور پر 1 لاکھ 27 ہزار 823 ووٹ حاصل کیے۔ بی این پی نے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی 6 نشستیں حاصل کیں۔

بلوچستان اسمبلی کیلئے میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے بلوچستان نیشنل پارٹی کو 6.56 فیصد ووٹ ملے۔

4- پاکستان تحریک انصاف

بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے تاہم اب بھی صوبے کی بڑی آبادی قوم پرست جماعتوں کی حامی ہے۔ پی ٹی آئی نے صوبے سے مجموعی طور پر ایک لاکھ 9 ہزار 743ووٹ حاصل کیے۔ صوبے میں تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی 5 سیٹیں ملیں۔

بلوچستان اسمبلی کیلئے میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک انصاف کو 5.63 فیصد ووٹ ملے۔

2013 میں پی ٹی آئی کو بلوچستان سے صرف 24 ہزار 30 ووٹ ملے تھے اور وہ کوئی نشست نہیں جیت سکی تھی۔

نوٹ: بلوچستان میں آزاد امیدواروں کو 3 لاکھ 23 ہزار 121 ووٹ ملے

دینی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ

الیکشن 2018 میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے دینی جماعتوں کا اتحاد سامنے آیا۔ ایم ایم اے میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، تحریک اسلامی پاکستان اور مرکزی جمعیت اہل حدیث جیسی مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق الیکشن 2018 میں قومی اسمبلی کے لیے دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ کو یکجا کیا جائے تو یہ تعداد تقریباً 51 لاکھ 15 ہزار بنتی ہے۔ اس میں سب سے بڑا حصہ ایم ایم اے کا رہا جسے ملک بھر سے 25 لاکھ 69 ہزار 971 ووٹ ملے۔ مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافے کا سب سے بڑا سبب تحریک لبیک پاکستان کی سیاست میں انٹری ہے جس نے اپنے پہلے ہی الیکشن میں 22 لاکھ 34 ہزار 338 ووٹ لے کر سب کو حیران کردیا۔


دینی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافے کے باوجود ڈالے جانے والے مجموعی ووٹوں میں سے مذہبی جماعتوں کا حصہ محض 9.31 فیصد رہا جبکہ اگر تین مقبول ترین جماعتوں (تحریک انصاف، ن لیگ اور پی ٹی آئی) کے قومی اسمبلی کے لیے حاصل کردہ ووٹوں کو یکجا کیا جائے تو تعداد تقریباً 3 کروڑ 66 لاکھ 49 ہزار271 بنتی ہے۔ یعنی عام انتخابات میں ڈالے گئے 5 کروڑ 49 لاکھ 8 ہزار 472 ووٹوں میں سے 66 فیصد ووٹ ان تین جماعتوں کے حصے میں گئے۔

2013 کے عام انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دینی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے تاہم یہ اضافہ تحریک لبیک پاکستان کی مرہون منت ہے کیوں کہ اگر ٹی ایل پی کے حاصل کردہ 22 لاکھ 34 ہزار 338 ووٹوں کو نکال دیا جائے تو ایم ایم اے سمیت تمام مذہبی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد تقریباً 28 لاکھ 83 ہزار 303 بنتی ہے جو 2013 میں دینی جماعتوں کی جانب سے حاصل کردہ ووٹوں 30 لاکھ 66 ہزار 595 سے بھی کم ہے۔

2013 کے عام انتخابات میں 4 کروڑ 62 لاکھ 17 ہزار 482 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا اور ان میں سے دینی جماعتوں کا حصہ 6.63 فیصد جبکہ ٹاپ تھری جماعتوں (ن لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی) کے حصے میں 63.75 فیصد ووٹ آئے تھے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ 2018 میں تحریک لبیک پاکستان کی آمد کے بعد دینی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ 5  اگست 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق ہے۔