ڈولفن ڈوب گئی، فوزیہ قصوری کو تو بچالیں خان صاحب!

فوزیہ قصوری تقریباً 21 سال تک تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ رہیں، لیکن پھر اختلافات کی بناء پر پارٹی چھوڑ گئیں—۔فائل فوٹو

چی گویرا کی شخصیت میرے لیے ہمیشہ متاثر کن رہی ہے، اس لیے نہیں کہ وہ بڑا کامریڈ یا نظریاتی لیڈر تھا، بلکہ اس لیے کیوں کہ وہ اُن لوگوں کے لیے لڑا جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس کے اپنے تھے۔

چی گویرا بنیادی طور پر ایک ڈاکٹر تھا، جو ارجنٹائن میں پیدا ہوا، وہیں پلا بڑا اور بیونس آئرس میں میڈیسن کے شعبے میں تعلیم حاصل کی۔

مختصراً ایک سنہرا مستقبل چی گویرا کی راہ دیکھ رہا تھا لیکن اُس نے اس آرام دہ زندگی کے بجائے کانٹوں بھری راہ چنی اور نظام بدلنے نکل کھڑا ہوا۔ چی گویرا نے غربت کے خاتمے اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو زندگی کا مقصد بنالیا۔

ویسے تو وہ ایک کمیونسٹ لیڈر تھا لیکن بنیادی طور پر اسے مسئلہ دنیا میں قائم اسٹیٹس کو سے تھا۔ وہ لاطینی امریکا میں امریکی حکومت کی مداخلت ختم کرکے پٹھو لیڈران کی جگہ عوام کے اصل نمائندوں کو بٹھانا چاہتا تھا۔

اس مقصد کے لیے اس نے لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں جدوجہد کی۔ وہ میکسیکو میں رہا، چلی گیا اور دیگر ممالک کے بھی دورے کیے لیکن کیوبا میں انقلاب چی گویرا کی سب سے بڑی کامیابی شمار ہوتی ہے، جہاں اس نے فیڈل کاسترو کا ساتھ دیا اور کیوبا کی تاریخ بدل دی۔

فیدل کاسترو نے اس کے بدلے چی کو نوازا۔ اسے حکومت میں اہم عہدے دیئے گئے لیکن پھر کاسترو حکومت بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوگئی، جس سے چی گویرا اور کاسترو میں اختلاف پیدا ہوگئے۔

اس سے ملتی جلتی ایک کہانی پاکستانی سیاست میں بھی موجود ہے۔ 1996 میں کچھ لوگ اسٹیٹس کو کے خلاف اکھٹے ہوئے، ان لوگوں کا تعلق 'اپر مڈل کلاس' طبقے سے تھا اور  یہ لوگ ملک میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔

انہوں نے عمران خان کو اپنا لیڈر بنایا اور انصاف کے حصول کے لیے 'پاکستان تحریک انصاف' کی بنیاد رکھ دی۔

ان لوگوں میں فوزیہ قصوری بھی شامل تھیں، جو تقریباً 21 سال تک عمران خان کے ساتھ رہیں۔ ہر مشکل اور خوشی، غم میں عمران کی جدوجہد میں اس کا ساتھ دیا لیکن پھر آہستہ آہستہ نئے آنے والوں نے پرانے لوگوں کی اہمیت کم کردی۔ یہاں تک کہ اصولوں پر بھی سمجھوتے ہونے لگے۔

بالکل کیوبا کی طرح جہاں کاسترو حکومت سیاسی مصلحت کا شکار نظر آرہی تھی، فوزیہ قصوری نے بھی چی گویرا کی طرح اس پر اعتراض کیا۔ وہ کئی بار ناراض ہوئیں اور ہر بار عمران خان نے فیدل کاسترو کی طرح انہیں منالیا۔ لیکن جب عمران خان 22 سال کی جدوجہد کے بعد منزل کے بالکل قریب پہنچ گئے تو فوزیہ قصوری کے اختلافات سنگین ہوگئے اور وہ بالکل اُسی طرح پارٹی چھوڑ گئیں، جس طرح چی گویرا کیوبا چھوڑ گیا تھا۔

فوزیہ قصوری نے رواں برس مئی میں پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی—۔فائل فوٹو/ بشکریہ پی ایس پی 

فیدل کاسترو نے چی گویرا کو روکنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔ وہ کانگو گیا اور پھر بولیویا میں نظام کی تبدیلی کی جدوجہد شروع کردی، البتہ وہ اس میں ناکام رہا اور مارا گیا۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ فوزیہ قصوری نے اس قسم کے نظریاتی اختلافات پر پارٹی نہیں چھوڑی تھی بلکہ انہوں نے خیبرپختونخوا سے سینیٹ کی سیٹ نہ دینے پر پارٹی کو خیرباد کہا تھا، لیکن پی ٹی آئی چھوڑنے کی وجہ کوئی بھی رہی ہو، فوزیہ قصوری نے جوائن ایسی ہی جماعت کی جو صرف کراچی کی حد تک ہی سہی لیکن تبدیلی لانا چاہتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ انہیں شاید پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ ڈوبتی کشتی میں سوار تھیں اور پھر الیکشن 2018 میں ڈولفن ڈوب گئی۔

آخر میں بس یہی مشورہ ہے کہ خان صاحب! فیدل کاسترو تو اپنے دوست کو نہیں بچاسکا تھا، کم از کم آپ تو فوزیہ قصوری کو بچالیں۔

(نوٹ: یہاں ہرگز فوزیہ قصوری کو چی گویرا جیسے عظیم لیڈر سے تشبیہ دینے کی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ صرف فیدل کاسترو اور چی گویرا کی کہانی کو عمران خان اور فوزیہ قصوری کی کہانی سے جوڑا گیا ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔