اصغر خان کیس 15 اگست کو سماعت کیلئے مقرر، نواز شریف اور دیگر کو نوٹس جاری


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں اصغر خان کیس بدھ (15 اگست) کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ سماعت کرےگا۔

عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نوٹس جاری کر دیا۔

دوسری جانب سابق آرمی چیف اسلم بیگ، سابق ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی، اٹارنی جنرل اور ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے 4 مئی کو اصغر خان کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا اور پیر 8 مئی کو سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو اصغرخان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ عدالت اصغر خان کیس میں فیصلہ دے چکی ہے، نظرثانی کی درخواستیں خارج کی جا چکی ہیں اور اب عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہونا ہے۔

بعدازاں 12 جون کو اصغرخان عملدرآمد کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے وزارت دفاع سمیت تمام اداروں کو ایف آئی اے سے تعاون کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ اصغر خان عمل درآمد کیس میں مزید تاخیر برادشت نہیں کریں گے، ایک منٹ ضائع کیے بغیر تفتیش مکمل کریں اور ایف آئی جس کو بلائے اس کو جانا ہوگا۔

اصغر خان کیس ہے کیا؟

1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔

اس حوالے سے ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔

خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔

پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔

سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔

مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔

مزید خبریں :