13 اگست ، 2018
پاکستان کرکٹ بورڈ میں انتظامی تبدیلی کی قیاس آرائیوں میں شدت آرہی ہے اور ایسے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے سابق صدر احسان مانی کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا سربراہ مقرر کرنے کی اطلاعات ہیں۔
اس بارے میں احسانی مانی سے رابطہ کیا گیا تو آئی سی سی کے سابق سربراہ نے کہا کہ میں اس وقت مری کے قریب ڈونگا گلی میں ہوں جہاں ٹی وی نہیں آتا اور اخبار ایک دن بعد آتا ہے۔ پی سی بی میں ذمے داریوں کے بارے میں مجھ سے ابھی تک کسی نے رابطہ نہیں کیا ہے۔ اگر مجھ سے رابطہ کیا گیا تو میں اپنی رائے دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے لوگ مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں اس لیے کہ میں گزشتہ چھ سات برسوں سے شوکت خانم اسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہوں اور گلیات اتھارٹی میں بھی مجھے ذمے داری دی گئی ہے۔ اس وقت عمران خان کے لیے کرکٹ اہم نہیں ہے وہ حکومت سازی میں مصروف ہیں۔
احسان مانی نے کہا کہ عمران خان کو پتہ ہے کہ مجھ سے کس طرح رابطہ کرنا ہے، میری عام انتخابات کے بعد ابھی تک عمران خان سے بات نہیں ہوئی ہے اگر انہوں نے کرکٹ کے حوالے مجھے سے رابطہ کیا اور رائے مانگی تو میں اپنی دستیابی اور رائے سے انہیں آگاہ کردوں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اہم ذمے داری دینے کے بارے میں عمران خان یا ان کے کسی مشیر نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا ہے، میں بھی اپنے بارے میں خبریں میڈیا کے دوستوں سے سنتا رہتا ہوں۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف براہ راست نجم سیٹھی کے معاملے پر کوئی پالیسی بیان نہیں دے رہی ہے اور نجم سیٹھی نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ہفتے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ اگر انہوں نے استعفیٰ دینا ہے تو اس کا تذکرہ اپنے کسی مشیر سے نہیں کیا ہے۔
نجم سیٹھی کی انتظامی ٹیم نے اپنے عہدوں کو بچانے کے لیے دوڑ بھاگ شروع کردی ہے جبکہ عمران خان کے قریب رہنے والے سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر اور پی سی بی ڈائریکٹر ذاکر خان بورڈ میں نئی انتظامی تبدیلی کے لیے متحرک ہیں۔
انہوں نے کئی موجودہ اور سابق کرکٹرز اور ریجن عہدیداروں کی عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کا انتظام کرایا تھا۔ ذاکر خان چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد کی جگہ لینے کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔ تاہم بورڈ کے آئین کے مطابق چیف آپریٹنگ آفیسر کا تقرر بورڈ آف گورنرز ہی کرے گا۔
ذاکر خان 2006میں ڈاکٹر نسیم اشرف کے دور میں چار مختلف شعبوں ڈومیسٹک،انٹر نیشنل کرکٹ، انفرا اسٹرکچر اور گیم ڈیولپمنٹ کے ڈائریکٹر تھے لیکن بعد میں ان کے پاس صرف ڈومیسٹک کرکٹ کا شعبہ رہ گیا۔
پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی یہ سوال انتہائی دلچسپ موضوع کے طور پرپچھلے چند ہفتوں سے موجود ہے کہ کیا نجم سیٹھی اور ان کے قریبی لوگ پاکستان کرکٹ بورڈ کے منظر سے غائب ہوجائیں گے؟
اس حوالے سے گزشتہ دنوں کراچی کے پانچ ستارہ ہوٹل کے ٹھنڈے کمرے میں جب یہ سوال نجم سیٹھی سے دریافت کیا تو کچھ لمحے کمرے میں خاموشی ہوگئی اور پھر ایسا لگا کہ ماحول میں گرما گرمی آنے والی ہے لیکن نجم سیٹھی نے بظاہر پر اعتماد انداز میں کہا کہ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ بننے کے بعد عمران خان اپنے کسی شخص کو پی سی بی میں لانا چاہتے ہیں تو مجھے اشارہ کردیں میں استعفی دے دوں گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نیا چیئرمین مقرر کرنا، پیٹرن ان چیف کا استحقاق ہے لیکن ابھی میں نے عہدے چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
یاد رہے کہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد عمران خان نے کھلم کھلا نجم سیٹھی کو اپنی شکست کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ عمران خان نے نجم سیٹھی پر الزام عائد کیا تھا کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے مبینہ طور دھاندلی کرائی تھی۔
عمران خان نے اس ضمن میں نجم سیٹھی کے لیے 35 پنکچرز کی اصطلاح بھی استعمال کی تھی جس پر نجم سیٹھی نے عمران خان کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔
25 جولائی کے عام انتخابات کے بعد نجم سیٹھی نے عمران خان خلاف مسلسل جارحانہ انداز اپنایا ہوا ہے۔ نجم سیٹھی نے ایک سیاسی تجزیہ کار کے طور پر اپنے اخباری مضامین اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے پیغامات میں عمران خان پر سخت الفاظ میں تنقید کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔
اس کے برعکس احسانی مانی ،عمران خان کے قریبی لوگوں میں شامل ہوتے ہیں۔ نجم سیٹھی سے شدید اختلافات رکھنے والے بھی ان کی ان کوششوں کو ضرور سراہتے ہیں جو انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان میں بحالی کے لیے کی ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کے کریڈٹ پر پی ایس ایل سب سے بڑی کامیابی کے طور پر موجود ہے لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ بنی گالہ نے اسی پی ایس ایل کے آڈٹ کو بنیاد بنا کر نجم سیٹھی کو گھر بھیجنے کی تیاری کر لی ہے۔