جعلی اکاؤنٹس کیس: سابق صدر آصف زرداری کی عبوری ضمانت منظور


کراچی: سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جعلی اکاؤنٹس کیس میں عبوری ضمانت منظور کرلی گئی۔ 

سابق صدر کراچی کی بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے جہاں عدالت نے 20 لاکھ روپے کے عوض ان کی عبوری زر ضمانت منظور کی۔ 

سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے مؤقف اختیار کیا کہ مقدمے کا سامنا کرنے کو تیار ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی 15 دن کی حفاظتی ضمانت منظور کی اس لیے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی جائے۔

عدالت نے آصف زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرتے ہوئے 20 لاکھ روپے زرضمانت جمع کرانے کا حکم دیا جس کے بعد کیس کی سماعت 4 ستمبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ بینکنگ کورٹ نے اس سے قبل آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جس پر انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کی جس پر عدالت نے انہیں 3 ستمبر تک متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

بینکنگ کورٹ آمد کے موقع پر صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ ہیلی کاپٹر میں نہیں آئے جس پر انہوں نے کہا کہ آپ کچھ دیر رکیں میں ہیلی کاپٹر میں واپس آتا ہوں۔

صحافی نے سوال کیا کہ صدر پاکستان کون بنےگا جس پر انہوں نے کہا کہ اعتراز احسن صدر پاکستان بنیں گے، ان سے ایک اور سوال کیا گیا کہ آپ کو یقین ہے کہ اعتراز احسن صدر پاکستان بنیں گے جس پر آصف زرداری نے کہا کہ ہماری کوشش ہےکہ اعتزاز احسن صدر بنیں۔

وکیل آصف زرداری کا بیان

آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی بینکنگ کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کا معاملہ بینکنگ کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں، ان کے موکل کے خلاف بےبنیاد چارج شیٹ تیار کی گئی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس کیس میں شامل کیا گیا جب کہ ایف آئی آر بھی بےبنیاد ہے اور آصف زرداری کو پھنسانے کے لیے دائر کی گئی۔

آصف زرداری کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر میں ان کے موکل کو ملزم ظاہر نہیں کیا گیا، 2008 میں صدر بننے کے بعد آصف زرداری نے کمپنی سے استعفا دے دیا تھا۔

یاد رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید، غنی مجید، حسین لوائی اور طحہ رضا گرفتار ہیں جب کہ آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور اور انور مجید کے 3 صاحبزادے عبوری ضمانت پر ہیں۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر

ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔

مزید خبریں :