02 ستمبر ، 2018
کراچی: شرجیل میمن کے کمرے سے شراب برآمد ہونے کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی جاوید عالم اوڈھو کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر میں چیف جسٹس کا نام ایس او پی کے تحت شامل نہیں کیا۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی آئی جی ضلع جنوبی جاوید عالم اوڈھو کا کہنا تھا کہ شرجیل میمن کا کمرہ سب جیل تھا اور قانونی معاملات دیکھ کر جیل انتظامیہ کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کسی سے رعایت نہیں برتی جائے گی اور گارڈ جس چیز کو تسلیم کر رہے ہیں اس کی تصدیق کی جائے گی جب کہ اسپتال انتظامیہ کے کردار کو بھی دیکھا جائے گا۔
ڈی آئی جی ضلع جنوبی کے مطابق وڈیو کلپس سے بالکل واضح ہے کہ کون یہ سامان لایا اور چیف جسٹس کے ساتھ اسپتال گئی ٹیم میں آئی جی جیل خانہ جات بھی تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر میں چیف جسٹس کا نام ایس او پی کے تحت شامل نہیں کیا، اگر ایف آئی آر میں ان کے دورے کا اندراج ہوتا تو بیان لینے کے لیے بھی بلانا پڑتا لہذا قانونی مشاورت کے بعد ان کا ذکر نہيں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نارمل پولیسینگ کی طرف آگئے ہیں، صرف موٹرسائیکل اور موبائل چھیننےکی وارداتیں بڑھی ہیں لیکن دو ہفتوں سے موٹرسائیکل اور موبائل فون چھیننے کی وارداتوں میں کمی آنے لگی ہے۔
جاویدعالم اوڈھو کا کہنا تھا کہ کراچی 2 کروڑ 20 لاکھ آبادی والا شہر ہے جس میں ٹرانسپورٹ کا منظم نظام موجود نہیں ہے جب کہ کراچی پولیس فورس میں 37 ہزار اہل کار اور افسران ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو سیف سٹی کے نظام کیلئے کہا ہے جس پر وزیر اعلیٰ نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، کراچی میں 7 ہزار کیمرے ہیں جب کہ دبئی میں 40 ہزار کیمرے ہیں۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کے اسپتال کے کمرے سے ملنے والی مبینہ شراب کی بوتلوں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ نے ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی جب کہ اس کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
شرجیل میمن کے کمرے پر چھاپے کی اندرونی کہانی
گزشتہ روز چیف جسٹس کے دورے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے جس کے مطابق صبح سویرے آئی جی جیل نے وی آئی پی قیدیوں کے اسپتال میں داخلے پر چیف جسٹس کو بریفنگ دی۔
آئی جی جیل خانہ جات نے رپورٹ میں بتایا کہ شرجیل میمن ضیاء الدین اسپتال، انور مجید این آئی سی وی ڈی اور عبدالغنی مجید جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
چیف جسٹس نے آئی جیل سے استفسار کیا کہ کیا واقعی یہ ملزمان ان ہی اسپتالوں میں ہیں؟ جس پر آئی جی جیل نے کہا کہ جی بالکل، یہ ملزمان ان ہی اسپتالوں میں ہیں، اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ گاڑی تیار کی جائے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار ضیاء الدین اسپتال پہنچے تو شرجیل میمن لگژری کمرے میں سو رہے تھے اور کمرے کے باہر ملازم نے بتایا کہ شرجیل میمن کمرے میں سو رہے ہیں جب کہ ان کے کمرے کی لائٹ بھی بند تھی جس پر چیف جسٹس نے ملازمین کو لائٹیں آن کرنے اور شرجیل میمن کو اٹھانے کا حکم دیا۔
شرجیل میمن کالے رنگ کی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں بغیر لاٹھی کے سہارے باہر آئے جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'شرجیل میمن، میں چیف جسٹس پاکستان، آپ کی خیریت معلوم کرنے آیا ہوں'۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'یہ ہے آپ کی سب جیل، سب جیل اسے کہتے ہیں؟ یہ تو مکمل صحت مند لگ رہے ہیں لہٰذا ان کو یہاں سے فوری جیل منتقل کریں'۔
چیف جسٹس نے شراب کی بوتلیں دیکھنے کے بعد شرجیل میمن سے استفسار کیا کہ یہ کیا ہیں؟ جس پر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ یہ میری نہیں۔
دو بوتلیں ڈبے میں اور ایک ڈبے کے اوپر شراب کی خالی بوتل رکھی ہوئی تھی جس پر سپریم کورٹ کے عملے نے ایک بوتل سونگھ کر چیک کیا اور بتایا کہ اس میں سے شراب کی بو آرہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیف سیکریٹری کو بلائیں اور دکھائیں یہ کیا ہو رہا ہے؟ چیف جسٹس نے عدالت واپس پہنچنے پر عدالتی عملے کو ضیاء الدین اسپتال جانے اور کمرے کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ہدایت کی۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کا عملہ ضیاء الدین اسپتال پہنچا تو ایس ایچ او غائب تھے جس پر عدالتی اسٹاف کو ایس ایچ او کا انتظار کرنا پڑا جب کہ اسپتال اسٹاف نے سپریم کورٹ عملے کو روکنے کی بھی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ کا عملہ مزاحمت کرکے شرجیل میمن کے کمرے تک پہنچا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی عملے کو شرجیل میمن کے کمرے کے باہر بھی روکا گیا جبکہ کمرے میں شرجیل میمن واش روم سے تولیا پہن کر باہر نکل رہے تھے۔
شرجیل میمن نے مکالمہ کیا کہ میں نے شراب نہیں پی ہے لہٰذا میڈیکل کرالیں تاہم ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے عملے کے پہنچنے تک کمرے کی چیزیں غائب کردی گئیں، شراب کی بوتلیں اور دیگر اشیاء بھی غائب تھیں لیکن سپریم کورٹ عملے نے کمرے کی مکمل ویڈیو بنائی۔