بلاگ
Time 08 ستمبر ، 2018

پاکستان کے ماحولیاتی تغیرات اور پلاسٹک آلودگی کے بڑھتے خطرات

پاکستان دنیا کے اُن 10 ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، جنہیں سخت ماحولیاتی تغیرات کا سامنا ہے—۔فوٹو/ بشکریہ ڈبلو ڈبلو ایف

'جرمن واچ' دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہ تھنک ٹینک ہر سال گلوبل کلائیمٹ رِسک انڈیکس کے نام سے ایک رپورٹ شائع کرتا ہے۔

اس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان، دنیا کے اُن 10 ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، جنہیں سخت ماحولیاتی تغیرات کا سامنا ہے۔ بات یہاں پر رُکی نہیں بلکہ پاکستان کی زمینی، سمندی اور فضائی آلودگی نے پورے ایکوسسٹم کو متاثر کیا ہے اور ہمارا ملک دنیا کے اُن بارہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں پورے ایکو سسٹم کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان گزشتہ کافی عرصے سے موسمی تغیرات کی لپیٹ میں ہے۔ ایک طرف تو مون سون بارشوں اور سیلابوں کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری طرف سخت موسموں کی پیشین گوئیاں، کبھی صدیوں سے قائم گلیشیئرز پگھلنے کی وارننگز ہیں تو کبھی ہیٹ وویو اور اسموگ جیسے مسائل کا سامنا۔کراچی کے شہریوں نے تو موسمی تغیر کی واضح مثال ہیٹ ویوو کی شکل میں دیکھی ہے، جب کئی ہزار شہری حبس اور لُو برداشت نہیں کرسکے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پاکستان کو صنوبر مینگروز کے جنگلات کی کٹائی کا بھی سامنا ہے اور دوسری طرف ہمارے سمندر اور دریا بھی زہریلے پانیوں میں بدل رہے ہیں۔

لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹنوں کے حساب سے پیدا ہونے والا پلاسٹک کا کچرا اس ماحولیاتی آلودگی کی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ 60 کی دہائی سے عام ہونے والا پلاسٹک بڑھتے بڑھتے 300 ملین تک جا پہنچا ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس کا استعمال ہر سال 3 گنا اضافے کے ساتھ بڑھ رہا ہے، لیکن پاکستان پلاسٹک مینوفیکچر ایسوسی ایشن کے مطابق ہمارے ہاں ہر سال 7 سے 9 فیصد کے حساب سے پلاسٹک کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔

ایک عام پاکستانی کی زندگی میں پلاسٹک کا استعمال 80 کی دہائی میں آیا اور اب باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک سستا، ہلکا اور پائیدار ہونے کی وجہ سے لازمی جز بن چکا ہے۔

دو دہائیوں پہلے تک ہمارے ہاں کپڑے کے تھیلوں کا رواج عام تھا اور ڈسپوزیبل چیزوں کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن اب گھروں سے لے کر دفاتر تک ہر جگہ پلاسٹک کی اشیاء ضرور ملیں گی، چاہے وہ فائل کور ہو یا پین، ہاتھ میں پکڑا موبائل کور ہو یا لنچ باکس۔ یہ ہی نہیں بلکہ ہمارے باورچی خانوں کا 70 سے 80 فیصد سامان پلاسٹک کا ہے، جن میں مصالحوں کے ڈبے، پانی کے جگ اور گلاس، کھانے کی پلیٹیں اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔

دو دہائیوں پہلے تک ہمارے ہاں کپڑے کے تھیلوں کا رواج عام تھا اور ڈسپوزیبل چیزوں کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن اب گھروں سے لے کر دفاتر تک ہر جگہ پلاسٹک کی اشیاء ضرور ملیں گی

حال ہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف رواں برس اپریل کے مہینے میں تقریباً 2 کروڑ 6 لاکھ روپے کی پلاسٹک کی اشیاء کی خرید و فروخت کی گئی۔ اس میں ربڑ سے بنی اشیا شامل نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں ہر طرح کا پلاسٹک کا استعمال عام ہے، جس سے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور کینسر، السر اور سانس کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔

یہ ہی نہیں بلکہ آلودگی کا مسئلہ اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس سال دماغی امراض کے عالمی دن کا موضوع بھی 'فضائی آلودگی اور ہمارا دماغ' تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی ہر 10 میں سے 9 افراد کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کر رہی ہے۔

نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ میگزین کے ایڈیٹر اور نیورلوجی اویئرنیس فاؤنڈیشن پاکستان کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ 'کراچی ایشیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے- ہمیں معلوم بھی نہیں کہ ہم سانس کے ساتھ کیا کیا اپنے اندر اتار رہے ہیں۔ فضا میں موجود زرات ہمارے جسم میں داخل ہو کر سوزش کا سبب بن رہے ہیں، جس سے ہمارا اعصابی اور معدافعتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے'۔

ری سائیکلنگ کیوں نہیں؟

پلاسٹک کی ایک خوبی اس کا ری سائیکل ہونا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس کا کوئی رواج نہیں اور اب ڈسپوزبل پلاسٹک مصنوعات سے ہمارے ماحول کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے۔ صرف کھانے پینے کی اشیاء میں استعمال ہونے والا پلاسٹ 31.15 فیصد ہے، جس میں پلاسٹک کی بوتلیں اور کین شامل ہیں۔

اور دنیا کے پیدا کردہ 8 ملین ٹن پلاسٹک کچرے میں سے صرف 9 فیصد ری سائیکل ہوتا ہے۔ 12 فیصد زمین میں دفن ہوجاتا ہے اور باقی 79 فیصد سمندر میں پھینک دیاجاتا ہے اور اگر اسی رفتار کے ساتھ پلاسٹک کو سمندر برد کیا جاتا رہا تو 2025 میں سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگا۔

اکتوبر 2017 میں کراچی سے دور 'اوسلو آئس لینڈ' پر ایک شارک کے منہ میں پلاسٹک کی تھیلی پھنس جانے کی خبر چونکا دینے والی تھی کہ اتنی دوr پلاسٹک تھیلی کا پہنچ جانا ہمارے بائیو ڈائیورسٹی کی تباہی کو واضح کرتا ہے۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلو ڈبلو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ 'ہمارے ہاں ریسائیکلنگ پلانٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا شدہ پلاسٹک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ حکومتی سطح پر کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں اور کچرے کے ڈھیر کے ڈھیر سمندر میں ڈال دیئے جاتے ہیں جبکہ فیکٹریوں کا تمام فضلہ بھی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے ندی نالوں کے ذریعے ہمارے سمندر تک پہنچ جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے سمندر آلودہ ترین ہو چکے ہیں'۔

 اگر اسی رفتار کے ساتھ پلاسٹک کو سمندر برد کیا جاتا رہا تو 2025 میں سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگا—۔فوٹو/ راقم الحروف

یقیناً اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے اور سمندری و فضائی آلودگی پر توجہ نہیں دی تو ہمارے سمندروں سے آبی حیات نا پید ہو جائے گی۔ ہماری سی فود انڈسٹری تو پہلے ہی یورپی یونین جیسی بڑی منڈی سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔

جامعہ کراچی کے شعبہ انوائرمنٹل اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ ایک بار کوئی پلاسٹک کی چیز وجود میں آگئی تو وہ ہمارے ماحول کا حصہ بن گئی۔ ری سائیکل کا ہمارے ہاں رواج نہیں یا پھر کچرے کو جلا دیا جاتا ہے جو ماحول کے لیے خود ایک تباہ کن عمل ہے۔ اس کے اثرات طویل عرصے کے بعد ہمارے ماحول پر نظر آنے  لگے ہیں۔ کراچی میں ہر روز 24 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اور اس میں سے 60 فیصد پلاسٹک کی کوئی نہ کوئی قسم ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو چاہیے تھا کہ ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جاتے اور باقاعدہ سالڈ ویسٹیج سسٹم بنایا جاتا، لیکن یہاں تو ہماری سندھ اور لوکل گورنمنٹ کچرا اٹھانے کے معاملے پر ہی تنازع کا شکار ہیں اور اپنی اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم بھی دنیا کے 60 ممالک کی طرح ڈسپوزیبل پلاسٹک پر پابندی لگا دیں؟ یہ سب کام تو حکومتی اداروں کا کام ہے، لیکن کیا ہمیں بحیثیت پاکستانی اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔

اس مقصد کے لیے درخت لگانے کے ساتھ ساتھ ہمیں کپڑے کے تھیلے عام کرنا ہوں گے اور پلاسٹک کی تھیلیوں کے بجائے کاغذ کے تھیلوں کا استعمال کرنا ہوگا، جو ماحول دوست عمل ہے۔ پلاسٹک کی اشیاء سستی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی دسترس میں ہیں لیکن ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ پلاسٹک کا استعمال صحت کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے۔



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔