بلاگ
Time 08 ستمبر ، 2018

کراچی ! تجاوزات کا جنگل

سیانے کہتے ہیں کہ رشوت میں بہت دم ہے، وہ بڑے بڑوں کی آنکھوں پر بے حیائی کا پردہ ڈال دیتی ہے اور کرارے نوٹوں کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ چپڑاسی سے افسران تک سب کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں— فوٹو: فائل

کراچی کی مشہور تفریح گاہ ہل پارک کی حدود میں ایک پہاڑی پر قبضے اور ناجائز تعمیرات کی خبر میڈیا پر نشر ہوتے ہی انسداد تجاوزات کے ذمہ داروں کو اپنی نوکریوں کی فکر پڑگئی۔ جگہ جگہ کارروائیاں کرکے غریب پتھارے والوں اور ٹھیلے والوں کو اٹھا کرلے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دکھاوے کی کارروائی سے پہلے میڈیا کے ساتھ طاقتورمافیہ کو خبرکردی گئی تھی۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران لینڈ مافیا نے حکومتی اداروں کی مدد سے ہل پارک کی حدود میں قائم ایک پہاڑی فروخت کردی۔ جس کے بعد پہاڑی پرتیز رفتاری سے لاتعداد گھر تعمیر ہوگئے اور آج بھی اسی رفتار سے تعمیرات کا کام جاری و ساری ہے۔ ایسا کیوں نا ہو جب تمام بنیادی سہولیات 'آسان شرائط' پرمہیا کی جا رہی ہوں۔ بجلی، ٹیلی فون، پانی، سیوریج کی لائنز، سڑکوں سمیت تمام ترقیاتی کام فٹا فٹ ہو گئے۔ زمین اور بنے بنائے گھروں کی خرید و فروخت بھی جاری رہی جس میں اربوں روپے ادھر سے ادھر ہو گئے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔

یہ تعمیرات کسی خفیہ جگہ پر نہیں بلکہ ایک تفریحی مقام کی حدود میں سب کے سامنے کی جارہی تھیں۔ اگر کسی کو خبر نہیں تھی تو حکومتی محکموں کو، ان کو پتا ہی نہیں چلا کہ غیر قانونی تعمیرات کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی نے اطلاع ہی نہیں دی اور اگر انہوں نے کارروائی کرنا بھی چاہی تو مافیا کے ارکان عدالتوں سے حکم امتناع لے آئے جس کے بعد ذمہ دار ادارے ایسا گئے کہ لوٹ کر ہی نہیں آئے۔

سیانے کہتے ہیں کہ رشوت میں بہت دم ہے، وہ بڑے بڑوں کی آنکھوں پر بے حیائی کا پردہ ڈال دیتی ہے اور کرارے نوٹوں کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ چپڑاسی سے افسران تک سب کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیا، ان کے کان بہرے اورآنکھیں اندھی ہوگئیں۔

یہ سب کسی چھوٹے یا دور درازعلاقے میں ہوتا تو مان لیتے کہ کسی کو معلوم نہیں ہوگا۔ مگر دنیا کے بڑے میٹروپولیٹن شہروں میں سے ایک شہر کراچی میں ہو رہا ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، جس کی 200 سے 300 فٹ چوڑی سڑکیں ایشیا کی بڑی شاہراہوں میں شامل ہیں۔ جہاں کے پر فضاء ماحول میں زندگی یوں مسکراتی جیسے بارش کے بعد ہرے بھرے درخت اور باغوں میں رنگ برنگے پھول۔

مافیا کے ہاتھوں کراچی کی 200 سے 300 فٹ چوڑی شاہراہیں 24 سے 60 فٹ رہ گئیں اور 24 سے 36 فٹ چوڑی گلیاں سکڑ کر 18 فٹ رہ گئی ہیں۔ یہ سب ہوا ملک کا 60 فیصد سے زائد ٹیکسز اور زرمبادلہ کمانے والے شہر کے ساتھ ۔

ہوا یہ کہ اس خوب صورت شہر کو نظر لگ گئی، مافیا کی بری نظر۔ شہر کی سستی مہنگی زمینوں، پارکوں اور کھیل کے میدانوں سمیت ہرخالی جگہ پر قبضہ اور تجاوزات مافیا کا عفریت چھا گیا۔ مافیا کے سردار اور چیف غیر نہیں اپنے ہی ہیں جنہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا، زمینوں، فٹ پاتھوں، سڑکوں اور پارکنگ پر قبضے کیے، جگہ جگہ ناجائز تجاوزات قائم کروائیں اور خود بھی کرلیں۔

پھر ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ جن کا کام ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنا اور ان مجروں اور زورآوروں کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا وہ ان ہی کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگ گئے۔ لیکن کیوں؟ اس لیے کہ ان ملازمین اور افسران کی تعیناتیاں عوام کی فلاح کے کاموں کے لیے نہیں کی جاتیں بلکہ طاقتور اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت کے لیے کی جاتی ہیں۔

عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے حکومتی ملازمین اور افسران عوام کی فلاح کا کام چھوڑ کر ملک کی دولت پر ڈاکے ڈالنے والوں کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ جس کے صلے میں انہیں بھی عوام سے رشوت کا کاروبار جمانے کا لائسنس دے دیا جاتا ہے۔ ملکی خزانے میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے لوگوں پر ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔

کراچی شہر کو تجاوزات کا جنگل بنانے والی مافیا میں سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور طاقتور اشرافیہ کی مدد کے لیے کے ڈی اے، کے ایم سی، ایم ڈے اے، ریوینیو ڈیپارٹمنٹ، کمشنر آفس، پولیس اور دیگر حکومتی محکموں کے ساتھ صوبائی اور سٹی حکومت سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

شہر کے مہنگے ترین علاقے کلفٹن، ڈیفنس، محمد علی سوسائٹی، پی ای سی ایچ ایس، گلشن اقبال اور حیدری اس مافیا کے پسندیدہ علاقے ہیں جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے رشوت کے نام پر بٹورے جا رہے ہیں۔ تجاوزات کی ایک نہایت معمولی مثال معروف شاہراہ خیابان اقبال پر کلفٹن برج کے قریب سڑک اور فٹ پاتھ پر قائم ریسٹورنٹ ہیں۔ یہاں فٹ پاتھ پر قبضہ کرکے کئی کیبن رکھ دیے گئے ہیں اور یہ سب پولیس اسٹیشن کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پولیس اور حکومتی محکموں کے افسران کی آنکھوں پر رشوت کا ایسا پردہ ڈال دیا گیا ہے کہ انہیں ہر شام سجنے والی یہ کھانے پینے کی دکانیں نظر نہیں آتیں۔

اس کے علاوہ صدر، برنس روڈ، ریگل، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ، لانڈھی، کورنگی، اورنگی، ملیر وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔ شہر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جو قبضہ اور تجاوزات مافیا کی نظر سے بچ گیا ہو، جہاں گلیوں اور سڑکوں پر قبضہ کر کے ناجائز تعمیرات قائم نہ ہوں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی سے روزانہ ایک ارب روپے رشوت وصول کی جاتی ہے یعنی مجرمان مزے میں اور اس غریب پرور شہر میں رہنے والے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے بچوں کے لیے مناسب مفت تعلیم ، صحت و صفائی کی مناسب سہولیات، آمدنی کے مناسب ذرائع فراہم کرنے کی حکومت کو کوئی فکرنہیں۔ انتخابات کے موقع پر کیے جانے والے بلند و بانگ دعوے عوامی نمائندوں کے منتخب ہوتے ہی ان کے ساتھ غائب جو جاتے ہیں۔

اگر کبھی میڈیا پر خبریں آنا شروع ہو جائیں تو پہلے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خبر کو دبوا دیا جائے اور اس میں ناکامی پر دکھاوے کی کارروائی کر کے غریب ریڑھی والوں اور پتھارے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور قبضہ مافیا کے ٹھیکیداروں اور طاقتور افراد بچا لیے جاتے ہیں۔ اکثر واقعات میں تو ان دکھاوے کا ایکشن کرنے والوں کے جانے کے ساتھ ہی کاروبار دوبارہ زور و شور سے شروع ہو جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اربوں کھربوں روپے رشوت لینے والی مافیا کے خلاف کبھی کوئی کارروائی ہو سکے گی؟ شہر کا بیڑا غرق کرنے والوں کو کبھی کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے گا؟ دکھاوے کے انسداد تجاوزات کی کارروائیاں کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی ہو گی؟ اس گھمبیر صورت حال سے نکلنے کا کیا کوئی راستہ ہے؟ تو ان سوالات کا جواب بہت آسان اور بہت مشکل بھی ہے۔

اس مسئلے کا حل قانون کا نفاذ، فوری اور بلاتفریق انصاف، دیانت دار بیوروکریٹس اور عوام کا درد سمجھنے اور اس کا مداوا کرنے والی سٹی اور صوبائی حکومتیں ہیں۔ یہ سب بہت آسان ہے اگر جذبہ ہو اور بہت مشکل اگر ضمیر سوگیا ہو اور رشوت لیے بغیر سکون نہیں آتا ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔