’پرواز ہے جنون‘ بڑی عید کیلئے سب سے مشکل فلم کیوں؟

 
حمزہ علی عباسی فلم کے ہیرو تھے ان کے پاس ہر وہ موقع تھا جو کسی ہیرو کے پاس ہوتا ہے اور یقیناً ’ہیرو کبھی زیرو‘ نہیں بنتا— فوٹو: فلم تشہیری پوسٹر 

فلم کا ’ٹیزر‘ بنانے والے کو شاباش کیوں دینی چاہیے؟ کیا واقعی فلم میں ایسا سب کچھ ہے جو کچھ لوگ ٹی وی ڈرامے ’سنہرے دن‘ یا ’الفا براوو چارلی‘ میں دیکھ چکے ہیں؟ فلم کے سائیڈ ہیرو حمزہ ہیں احد ؟ کیا ہانیہ کو اتنا بڑا کردار دینا چاہیے تھا؟ 

کیا ہانیہ نے صرف فوٹو سیشن کیلئے دوسروں کا یونیفارم پہننے کی غلطی کی یا پھر فلم میں بھی اُن سے گڑ بڑ ہوگئی؟ کیا احد اپنی پہلی فلم میں ہی اپنے آپ کومنوانے میں کامیاب ہوگئے؟ احد کے ابو آصف رضا میر فلم میں کس کردار کے والد بنے؟ اس فلم میں ’نامعلوم افراد ٹو‘ کی کونسی جوڑی دہرائی گئی؟ فلم کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟

’پرواز ہے جنون‘ کی سب سے بڑی کامیابی اِس فلم کا ”ٹریٹمنٹ “ہے جو دو مختلف زمانوں کو مسلسل ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ماضی حال کی مسلسل انٹرکٹنگ دیکھنے والوں کو گرفت میں رکھتی ہے۔ 

فلم کی شوٹنگ کے دوران کا منظر — فوٹو: حمزہ علی عباسی فیس بک اکاؤنٹ 

ایک زمانہ حمزہ علی عباسی اور دوستوں کا ہے تو دوسرا دور احد رضا میر اور ساتھیوں کا ہے، ہانیہ عامر ان دونوں زمانوں کو کیسے جوڑتی ہیں اس کا جواب فلم دیکھنے والے ہی جان سکیں گے۔ فلم کا پہلا ہاف شاندار اور تیز لیکن دوسرا نسبتاََ کافی سستی سے آگے بڑھا۔

فلم کی کہانی کی بنیاد کیونکہ ایئر فورس اور اس کی اکیڈمی ہے اس لیے کچھ مناظر، شرارتیں، سزا اور ماحول، یہاں تک کہ کچھ کردار کے ’شیڈز‘ جیسے ’سنہرے دن‘ اور ’الفا براوو چارلی‘ کی طرح کا تھا لیکن یہ ناگزیر تھا۔

حمزہ علی عباسی دوران شوٹنگ جوانوں کے ساتھ — فوٹو: فلم تشہیری پوسٹر 

یہ ایسا ہی ہے جب کسی بھی فلم میں شادی، کالج، اسپتال، تھانے یا عدالت جیسے کے مناظر کا آپ دوسری فلم یا ڈرامے کے ویسے ہی مناظر یا ماحول سے موازنہ کریں۔فلم کے اس پہلو پر تنقید کرنے والے یہ بات بھول گئے کہ یونیورسٹیز،ہاسٹلز، پولیس اسٹیشن یا کورٹس تو ہر فلم میں ہوتی ہیں لیکن ان اکیڈمیوں کے مناظر سالوں بعد ڈراموں یا فلموں کا منظر بنتے ہیں۔

اس فلم میں بھی تیز ’خوشبو‘کا تیل، اکیڈمی میں سینئر کی طرف سے سختی، نوجوانوں میں جیتنے کی جنگ، دوسروں کے دباؤ یا محبت میں فورس جوائن کرنے کی کوشش، صبح اٹھنا، مشقوں میں ناکامی کے بعد سزائیں بھگتنا، کھانا چُرانا، سب کچھ تھا اور بہت اینٹرٹیننگ تھا اورہاں فلم میں ’ماؤتھ آرگن‘ بھی ہے جس کو بجانے والے کا فلم ’شعلے‘ یا اس کے کردار سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

فلم میں مرکزی کردار ہانیہ کا ہے، انھوں نے بہت اچھی طرح نبھایا بھی، وہ بہت خوبصورت بھی لگیں لیکن تاثرات اور ایکٹنگ میں حمزہ اور احد کا طیارہ ان سے کافی آگے نکل گیا۔ ہانیہ نے ایکٹنگ کا امتحان 75 فیصد نمبروں سے پاس کیا ہے لیکن اتنا بڑا اور اہم کردار کسی بھی اداکارہ کو اپنے کیریئرکے شروع میں شاذو نادر ہی ملتا ہے۔

 فلم کی کاسٹ — فوٹو: فلم فیس بک پیج 

انھیں اس کردار کو امر کردینا چاہیے تھا، احد رضامیر نے انتہائی سنجیدہ پرفارمنس دی ہے، ہیرو تو وہ تھے ہی لیکن ان کے کردار میں جلن، غرور، تکبر اور اوور کانفیڈنس کے منفی شیڈز صاف ابھر کر سامنے آئے جو ان کی ایٹنگ کی بڑی کامیابی ہے۔ 

اس کردار کے پاس نہ تو کرنے کیلئے رقص تھا نہ زوردار مکالمے نہ دوسرے ہیرو کی طرح ہیوی بائیک، جیٹ طیارے اور دشمن کو اڑانے کا مشن، پھر بھی آنکھوں کی شدت ہو یا چہرے کے تاثرات، سزا میں ملی اٹھک بیٹھک ہو یا ”مِیس“ میں کھانے پر ملنے والی سزا، برف کے امتحان میں لیڈری کا غرور ہو یا شکست مان کر زندگی بچانے کی جدو جہد اور سب سے بڑھ کر آخر میں ہانیہ کے مشن میں اس کا ساتھ دینے کے بعد دوسروں کی جیت کا احساس۔

اب جنھوں نے فلم بنائی ہے وہ تو احد کو ایوارڈ ضرور دیں گے لیکن اس سال وہ ہر ایوارڈز میں بہترین نئے اداکار کے ساتھ بہترین اداکار کیلئے بھی فیورٹ ہیں۔ شاید ایسا ڈیبو پاکستانی فلموں میں فواد خان کا ’خدا کیلئے‘ میں تھا جس میں کامیڈی اور رومانس کم سنجیدگی اور شدت بہت زیادہ تھی۔

فلم کی اسٹار کاسٹ تشہیری مہم میں شریک — فوٹو: فلم پیج

حمزہ علی عباسی فلم کے ہیرو تھے ان کے پاس ہر وہ موقع تھا جو کسی ہیرو کے پاس ہوتا ہے اور یقیناً  ’ہیرو کبھی زیرو‘ نہیں بنتا۔ ان کے پاس ہیروئن بھی تھی اور دلہا کے دوست والی انگلی بھی، دو لاکھ روپے سلامی اور زبردست گانے بھی اور پرفیکٹ ’اینڈ‘ بھی۔

فلم میں ایک طرف تو اتنی” ڈیٹیل “سے کام لیا گیا کہ صرف ایک کیڈٹ ساتھیوں کی طرح پاجاما یا شارٹ نہیں بلکہ شلوار پہن کر سوتا ہے، دوسری طرف ہانیہ کے نام کی پلیٹ میں فلم میں بھی کوئی مسئلہ تھا کیونکہ وہ نام ”بلر“ کردیا گیا۔ خیر ہر فلم میں اس طرح کے ”کنٹنیوٹی جمپس“ یا” بھول چوک “ ہوتی ہیں دیکھنے والے کبھی پکڑ لیتے کبھی سب کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ ویسے قبر کے منظر پر بھی ایک”انسرٹ“ جوں کا توں دہرایا گیا۔

فلم کی نتھیاگلی میں شوٹنگ کا ایک منظر — فوٹو: حمزہ علی عباسی فین پیج 

فلم کی لوکیشن لاجواب ہیں خاص طور پر نلتر ویلی کے مناظر جو بڑی اسکرین پرغالبا پہلی بار دکھائے گئے ہیں۔ مکالموں کے میدان کی سطح اوپر نیچے ہوتی رہی جیسے ”ہیرو زیرو نہیں ہوتا“، ’ہاتھوں کی لکیروں پر نام‘ یا پھر ”سہاگ رات کا ذکر” یہ ذرا کمزور مکالمے تھے لیکن ”جب دھرتی پکارتی ہے سر“ جیسے زوردار پنچز بھی بہت سارے تھے۔ ایک مکالمہ جہاں ” عمر بھر“ کا استعمال ہوتا ہے وہاں ”ہمیشہ“ یا اس سے ملتا جلتا تصور زیادہ بہتر ہوتا۔

فلم کا سب سے کمزور پہلو حمزہ اور ان کے والد کی ناراضی اور اس میں اتنی شدت ہے کیونکہ اس بظاہر اب کوئی جان نظر نہیں آئی، پھر جس طرح حمزہ اور ہانیہ کے افیئر کے بارے میں مرینہ (جی ہاں ’نامعلوم افراد ٹو‘ کی طرح یہاں بھی مرینہ خان نے ہانیہ کی والدہ کا کردار ادا کیا ہے) اور خود ہانیہ کا ردعمل ہوتا ہے وہ بھی کچھ ہضم نہیں ہوتا۔ 

فلم کا” دی اینڈ“ بہت ہٹ کر،سنجیدہ اور بہت عمدہ ہے، اس اینڈ کی خاص بات ہے یہ کچھ کیلئے تشنگی رہے گی لیکن زیادہ تر کیلئے  یہ مکمل انجام کے بعد نیا آغاز تھا۔

فلم کی شوٹنگ کا منظر — فوٹو: فین پیج 

فلم کا میوزک اعلیٰ اور مقبول بھی ہے، ”میں اڑا“ زبردست ترانہ تھا تو ”بھلیا“ نے بھی مکمل گرفت رکھی، شادی والا گانا زیب بنگش کے نام رہا لیکن سب سے مقبول ” تھام لو“ رہا، اس گانے کا ایک غمگین ورژن بھی ہونا چاہیے تھا۔

اسی فلم میں گیت ”مسافر“ اور قوالی ” ایک ہے تو“ بہت کم پروموٹ ہوئے ، یہ دونوں بھی کلاسک میوزک کا حصہ تھے لیکن ایک کو فلم میں بہتر استعمال نہیں کیا گیا دوسرے کو موثر پروموٹ نہیں کیا گیا۔

فلم کا کینوس بہت وسیع تھا لیکن پھر بھی ڈائریکٹر صاحب یا جس کسی نے بھی فلم شوٹ کرنے کے بعد ”فائنل ایڈٹ“ کی ”کال“ دی ہے وہ تالیوں کے مستحق ہیں، فلم میں اتنے کردار، اتنی کہانیاں تھیں جن کو سمونا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔

اداکار سین کی شوٹنگ کے بعد عکس بند مناظر دیکھتے ہوئے — فوٹو فین پیج

شاز خان، عدنان جعفر اور آصف رضا میر کے کردار تو بہت اہم تھے لیکن کبریٰ خان، شمعون عباسی، فرحان علی آغا، فارس شفیع اور رشید ناز نے چھوٹے کرداروں میں بھی اچھی ایکٹنگ کی۔

احد کے دوستوں میں سب سے زیادہ شفاعت کو اسکرین پر جگہ ملی اور اس کی وجہ شاید یہ کہ فلم میں جتنی تھوڑی سی بھی کامیڈی ہے وہ شفاعت نے ہی کی ہے۔

’فلم پرواز ہے جنون‘ کو میٹھی عید پر ریلیز ہونا تھا، اس فلم کا پہلا ٹیزر اپریل میں ریلیز ہوا تھا اور اس ٹیزر نے صاف بتادیا کہ فلم کو عید پر ریلیز کرنے کی وجہ سے جلدی جلدی ایڈیٹ کیا جارہا ہے۔

فلم کی اینیمیشن بھی بہت سطحی سی لگ رہی تھی لیکن بعد میں ایسی خبریں آئیں کہ ایسا لگنا شروع ہوگیا کہ فلم شاید ریلیز ہی نہ ہو اور اس کا انجام ’پروجیکٹ غازی‘ جیسا ہوجائے یا پھر عید پر ریلیز ہو کر فلم کا رزلٹ ”ٹِک ٹاک“ جیسا ہو لیکن ٹیزر سے ملنے والے ری ایکشن کے بعد فلم میکرز نے جتنے فیصلے کیے وہ ”ٹھیک ٹھاک “ ثابت ہوئے۔

فلم میں گیت کی شوٹنگ کا منظر — فوٹو: فین پیج

 یہاں یہ بات کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر فلم کا ٹیزر اچھا ایڈیٹ ہو کر آتا تو فلم بنانے والوں کو اپنی غلطیوں کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔

فلم کی ریلیز کیلئے چھوٹی عید کے بجائے بڑی عید کو ٹارگٹ کیا گیا، غالباً لگتا یہی ہے کہ فلم کے پوسٹ پر ان تین مہینوں میں بہت کام ہوا اور جو فائنل پروڈکٹ نکلا اس نے سب کو حیران کردیا۔

فلم کی اسٹار کاسٹ شوٹنگ کے دوران — فوٹو: فین پیج

میٹھی عید کے بعد فلم کا پہلا ٹریلر آیا اور یہ یقینا ’جوانی پھر نہیں آنی ٹو‘ اور ’لوڈ ویڈنگ‘ کے ٹریلرز سے کافی بہتر تھا اور ریلیز سے پہلے ہی سب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ فلم دو بڑی فلموں کے مقابلے کے باوجود دوسرے نمبر کی اوپننگ لے گی اور ایسا ہی ہوا۔

فلم کیلئے ایک اور بڑا چیلنج تھا کہ باقی دونوں فلموں میں کامیڈی زیادہ تھی جو عید پر ریلیز ہونے والی فلموں کیلئے بہتر فارمولا سمجھا جاتا ہے لیکن اس فلم کو سنجیدگی، بہتر اداکاری، پرومشن اور بالآخر پبلک رسپانس نے فائدہ پہنچایا۔

فیملی آڈینس کیلئے بھی یہ فلم پہلی پسند ٹھہری،  ’پرواز ہے جنون‘ اپنے فلم میکرز، ڈائریکٹر، پروڈیوسرز، سینما ٹو گرافر اور میوزک ڈائریکٹرز سمیت سب کیلئے ایک بڑا امتحان تھی جس میں سب ملکر اول درجے میں پاس ہوئے۔

نوٹ :

1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔

2۔۔ ہر فلم سنیما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے۔ فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سنیما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔

3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔

4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں لہذا آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔

5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔

6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں۔ بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔

7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دو گھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔

مزید خبریں :