12 ستمبر ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی قید کی سزا کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرلیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں کی سماعت کی۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے سزا معطلی کے حق میں دلائل مکمل کرلیے۔
نواز شریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان نہیں دیکھا جس میں ایون فیلڈ کی ملکیت بتائی گئی ہو جس پر جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا 'اگر ملکیت نہ بتائی گئی ہو تو پھر نتائج کیا ہونگے؟'
معلوم ذرائع کا ہی معلوم نہ ہو تو تضاد معلوم نہیں کیا جاسکتا، وکیل نواز شریف
خواجہ حارث نے کہا کہ معلوم ذرائع کا ہی معلوم نہ ہو تو تضادات معلوم نہیں کیے جاسکتے اور جب معلوم ذرائع نہیں بتائے جائیں گے تو عدم مطابقت کا نہیں معلوم ہوسکتا اور یہ بہت بنیادی نکتہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا 'کیا نواز شریف کا موقف یہ ہے کہ میاں شریف نے جائیداد تقسیم کی ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا موقف ہے کہ ان کا جائیدادوں اور سرمایہ کاری سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کے سامنے موقف یہ ہے کہ ان کا ان جائیدادواں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا کہ عدالتی فیصلے میں بے نامی دار کی بات آئی ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا فیصلے میں صرف زیر کفالت کا ذکر ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 'کیا کبھی زیر کفالت کو سزا ہوئی ہے، نیب کا موقف تھا کہ بچے زیر کفالت تھے' جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ بچے نواز شریف کے زیر کفالت نہیں تھے اور ریکارڈ پر ایسا کوئی ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا 1993 میں بچے کس کے زیر کفالت تھے جس پر خواجہ حارث نے کہا اس وقت بچوں کا دادا زندہ تھا، فاضل جج نے استفسار کیا میاں شریف کی حیات میں یہ کاروبار مشترکہ خاندانی تھا جس پر وکیل نے کہا شیئر ہولڈنگ سب کی تھی۔
فرد جرم اور سزا میں واضح تضاد ہے، پراپرٹیز کا جہاں بھی ذکر ہے وہاں بیٹوں کا نام ہے نواز شریف کا کہیں نہیں، خواجہ حارث
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا 'کیا فرد جرم میں بے نامی کا ذکر ہے' خواجہ حارث نے جواب دیا، فرد جرم اور سزا میں واضح تضاد ہے، پراپرٹیز کا جہاں بھی ذکر ہے وہاں بیٹوں کا نام ہے نواز شریف کا کہیں نہیں۔
خواجہ حارث نے کہا 'ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ عموماً بچے والدین کی زیر کفالت ہوتے ہیں، بچے زیر کفالت ہیں اس لیے نواز شریف مالک ہیں'۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بچے زیر کفالت تو دادا کے بھی ہو سکتے ہیں، کوئی ایسا ثبوت پیش کیا گیا کہ بچے نواز شریف کے زیر کفالت تھے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت یا دستاویز موجود نہیں ہے اور واجد ضیا بھی اس طرح کہتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نواز شریف خود بھی میاں شریف کے زیر کفالت ہو سکتے تھے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں ایک سے زیادہ چیزیں مفروضوں پر مبنی ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ نے پہلے کہا تھا کہ واجد ضیاء نے بتایا انہوں نے جائیداد کی اصل قیمت کہیں نہیں دیکھی، اگر کچھ دستاویزات میں قیمت نہیں لکھی گئی تو اس کا اثر کیا پڑے گا۔
بار ثبوت نیب پر آتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
خواجہ حارث نے کہا اگر جائیداد کی قیمت نہیں لکھی گئی تو نتیجہ کیسے نکالا جا سکتا ہے، معلوم ذرائع آمدن اور فلیٹس کی قیمت بتائے بغیر کہا گیا اثاثے آمدن سے زائد ہیں، گواہوں کے بیانات موجود ہیں لیکن کسی نے اصل قیمت سے متعلق نہیں بتایا۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا 'واجد ضیاء نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بچوں کا زیر کفالت ہونے سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام میں بچے کس کے زیر کفالت تھے، بار ثبوت نیب پر آتا ہے، جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے پرنیب کو بتانا ہوگا کہ بچے کس کے زیر کفالت تھے اور یہ سوال اہم ہے کہ بچے دادا کے زیر کفالت تھے یا والد کے، ٹرائل کورٹ نے تو مفروضے پر یہ بات کہی کہ عمومی طور پر بچے والد کے زیر کفالت ہوتے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 'کیا تمام درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ پراپرٹی سیٹلمنٹ میاں شریف نے کی اور کوئی ایسا دستاویز ہے جو نواز شریف کی فلیٹس کی ملکیت ظاہر کرے'۔
خواجہ حارث نے جواب دیا پراسیکیوشن، گواہوں، تفتیشی میں سے کسی نے ایسی کوئی دستاویز پیش نہیں کی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ 'کیا نواز شریف نے اپنی تقاریر میں قطری کا کوئی ذکر کیا تھا جس پر خواجہ حارث نے کہا 'نواز شریف کی تقاریر اور قوم سے خطاب میں اس طرح کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا۔
مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل کے دلائل
جسٹس اطہر من اللہ نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا سزا بے نامی دار پر ہوئی، زیر کفالت کے معاملے پر نہیں، مریم نواز کو ٹرائل کورٹ نے بینیفشل اونر قرار دیا اور والد کی پراپرٹی چھپانے پر سزا سنائی۔
اس موقع پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ فرد جرم سے نیب آرڈیننس شیڈول تھری اے کو حذف کردیا گیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا تھا اگر جعلی دستاویز جمع کرانا ثابت ہو تو معاملہ متعلقہ فورم کو بھجوایا جائے۔
امجد پرویز نے کہا ' نیب کے گواہ رابرٹ ریڈلے فونٹ کی شناخت کا ماہر نہیں تھا، مریم نواز کا کردار تو تب سامنے آئے گا جب نواز شریف کا اس پراپرٹی سے تعلق ثابت ہوگا۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو دیکھنا ہے جو خود کہتا ہے کہ وہ مفروضے پر مبنی ہے، مفروضے کی بنیاد پر کرمنل سزا برقرار نہیں رہ سکتی۔
عدالت نے یکطرفہ دلائل سنے ہیں، ہم تمام معاملات پر عدالت کو مطمئن کریں گے، پراسیکیوٹر نیب
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا کہ ابھی آپ نے یکطرفہ دلائل سنے ہیں، ہم تمام معاملات پر عدالت کی معاونت اور مطمئن کریں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کس نے نواز شریف کے اثاثوں کا چارٹ تیار کیا ، شواہد سے بتائیے گا، ہم شواہد کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے لیکن سرسری جائزہ لے سکتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے تو کہا کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں کہ نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق ثابت ہو جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نائن اے فائیو کے حوالے سے میرے موکل کے خلاف رتی برابر ثبوت پیش نہیں کیا گیا، مریم نواز سے زیر کفالت ہونے کا سوال ہی نہیں پوچھا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے امجد پرویز سے سوال کیا تو پھر آپ کا موقف کیا تھا پر انہوں نے بتایا کہ مریم نواز نے کہا کہ دادا کے زیر کفالت تھی اور وہ ہی خاندان کے تمام افراد کو پاکٹ منی دیتے تھے۔
مریم نواز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو کل دلائل شروع کرنے کی ہدایت کردی جس کے بعد سماعت کل دن سوا 12 بجے تک ملتوی کردی گئی۔