رجسٹرار کو فوری برطرف کر کے سینڈیکیٹ کو فعال نہیں کیا گیا تو علامتی بھوک ہڑتال سے احتجاج کا آغاز کردیا جائے گا، اساتذہ تنظیم کی دھمکی
17 ستمبر ، 2018
گزشتہ دس برس کے دوران سندھ حکومت کوئی نئی جامعہ تو تعمیر نہیں کر سکی ۔ تاہم چند کالجز کو جامعات کا درجہ ضرور دیا گیا تاکہ شعبہ تعلیم میں کارکردگی کو بہتر بتایا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی تعلیم میں صفر کارگردگی کی ایک بڑی وجہ ہر سال خطیر رقم کا خرد برد ہے۔
مالی بد عنوانیوں میں سرے فہرست گھوسٹ اسکول ، گھوسٹ ملازمین کی تنخواہیں، عمارتوں کی تعمیر و ترقی اور سہولیات کے نام پر فنڈز کے کاغذی استعمال سے فائلو ں کا پیٹ بھرنا ہے۔ اندورن سندھ کی لا تعداد اسکول کی عمارتوں میں مال مویشی بندھے ہیں جبکہ کئی گاؤں کے وڈیرے کی اوطاق ہیں ۔ اس کی شکایات تو میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں مگر تعلیم کی وزارت اور محکموں کے ارکان کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
تعلیم کے میدان میں گڑبڑ کی تازہ مثال سندھ کی معروف لیاقت یونیورسٹی میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشورو ہے۔ جامعہ کی بد انتظامی سے تنگ آ کر آئے دن پروفیسرز مستعفی ہور ہے ہیں ۔ یہ حال ہے اس درسگاہ کا جہاں سینکڑوں طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دو ماہ قبل ڈاکٹر معین انصاری اور ڈاکٹر غضنفر رجسٹرار کے رویے اور جونیئر اساتذہ کو ترقی دینے کے خلاف اپنے عہدوں سے مستعفے ہوچکے ہیں ۔
جب کہ غیر پیشہ ورانہ رویے سے دل برداشتہ ہو کر مزید دو خواتین پروفیسر ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر ساجدہ نے بھی استعفے دے دیے ہیں ۔ مستعفی ہونے والے پروفیسرز کا کہنا ہے کہ جامعہ کے امور وائس چانسلر کے بجائے رجسٹرار ڈاکٹر روشن بھٹی چلا رہے ہیں۔ اور ان ہی کے احکامات پر جونیئراساتذہ کو خلاف قانون ترقیاں دی جا رہی ہیں۔
انتظامی معاملات کے ساتھ جامعہ میں مبینہ مالی بےقاعدگیوں کی شکایت بھی بڑھ گئی ہیں۔ بدعنوانیوں کے باعث سندھ ہایئر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت نے جامعہ کا سہ ماہی بجٹ روک دیا لیکن یونیورسٹی کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ حالیہ جائزوں کے مطابق تعلیمی کے میدان میں سندھ ، صوبہ پنجاب اور کے پی سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ اور کیوں نا ہو ،جب اعلیٰ تعلیمی ادارے بحران کا شکار ہو ں اور حکومت آنکھیں بند کیے رہے۔
مستعفی ہونے والے پرفیسرز کا کہنا ہے کہ جامعہ کے معاملات وائس چانسلر کے ہوتے ہوئے رجسٹرار ڈاکٹر روشن بھٹی چلا رہے ہیں۔ جب لیاقت یونیورسٹی اینڈ میڈیکل ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر بیکا رام سے موقف دینے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے پراسرار خاموشی اختیار کر لی ۔
یہ بات قابل ذکر ہےکہ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت تمام ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو برطرف کرکے حاضر سروس عملے کو تعینات کیا جانا تھا لیکن لیاقت یونیورسٹی کے معاملے میں ان احکامات کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا اور ایک ریٹائرڈ شخص کو رجسٹرار کے عہدے سے نہیں ہٹایا جارہا ہے ۔
گزشتہ ہفتے لیاقت یونیورسٹی جامشورو کے پروفیسرز، اسسٹنٹ پرفیسرز، لیکچررز اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے یونیورسٹی انتظامیہ کی من مانیوں کے خلاف پریس کانفرنس میں سنگین بے قاعدگیوں کے الزامات لگائے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری رسول بخش بیہن، آرتھوپیڈیک سرجن ڈاکٹر فہیم میمن،پروفیسر ایوب لغاری اور پروفیسر سہیل عالمانی نے وی سی اور رجسٹرار کو جامعہ کی تباہی کا ذمہ دارقرار دیا۔
سینئر پروفیسرز کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی رجسٹرار انتقامی کارروائیاں کررہے ہیں جن میں جبری تبادلے ، تنخواہوں پر بندش اور اساتذہ کی تذلیل معمول بن گئی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ 22 ارکان پرمشتمل سینڈیکیٹ کو غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ سینڈیکیٹ کے ارکان میں سے سات ارکان لیاقت یونیورسٹی کے ٹیچنگ اسٹاف جبکہ 17 ارکان کا تعلق مختلف اداروں سے ہے جن میں وزیراعلی سندھ کے نامزد کردہ تین ارکان رکن اسمبلی /سینٹر زبھی شامل ہیں۔
اس کے باوجود گزشتہ دو سالوں سے سینڈیکیٹ کی منظوری کے بغیر بجٹ استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سینئر پروفیسرز کے استعفوں کا معاملہ بھی سینڈیکیٹ میں بحث کے لیے نہیں لایا گیا۔
اس معاملے پر رجسٹرار ڈاکٹر روشن بھٹی نے دعویٰ کیا کہ یونیورسٹی کے بجٹ کا نجی کمپنی سے آڈٹ کروا لیا گیا ہے لیکن آڈٹ رپورٹ ابھی موصول نہیں ہوئی۔
واضح رہے کہ اس سال مئی میں سینڈیکٹ کے اجلاس میں انتظامیہ سے کہا گیا تھا کہ پندرہ دن میں آڈٹ رپورٹ پیش کی جائے۔
اس کے جواب میں رجسٹرار نے کہا کہ پندرہ دن میں تو خط بھی نہیں پہنچتا آڈٹ کس طرح ہوسکتا ہے، تاہم آڈٹ رپورٹ ملنے کے بعد سینڈیکٹ کے اجلاس میں پیش کردی جائے گی ۔ بجٹ کی سینڈیکیٹ سے منظوری کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر فنانس اور وائس چانسلر ہی بتاسکتے ہیں کہ بجٹ کیوں منظور نہیں ہوا۔
سینئر پروفیسرز اور اساتذہ کی تنظیم کا کہنا ہے کہ رجسٹرار کو فوری برطرف کر کے سینڈیکیٹ کو فعال نہیں کیا گیا تو علامتی بھوک ہڑتال سے احتجاج کا آغاز کردیا جائے گا۔ اگر اس کے باوجود مسئلہ حل نا ہوا تو تدریسی عمل کی معطلی ، اسپتال میں او پی ڈی اور آپریشن تھیٹر کی بندش بھی زیر غور ہے۔
پروفیسرز کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ کو جامعات کے چانسلر کی حیثیت سے فوری نوٹس لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ اگر وزیراعلیٰ سندھ نے بھی فوری نوٹس نہ لیاتو تعلیم کی یہ قدیم درسگاہ تباہی کا شکار ہوجائے گی۔