Time 20 ستمبر ، 2018
پاکستان

’گوادر کے ساحل پر سمندری حیات کو خطرہ‘

گوادر کے ساحل پر مردہ پایا گیا گرین نسل کا کچھوا: فوٹو/ راقم

کچھووں کی نایاب گرین نسل کا کچھوا بدھ کی رات گوادر کےمغربی ساحل پدی زر پر مردہ حالت میں پایا گیا، اس گرین کچھوے کا وزن 45 کلو گرام سے زیادہ ہے۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی عبدالرحیم نےجیو نیوز کوبتایا کہ مردہ حالت میں پایا جانے والا سبز کچھوا جنس کے اعتبار سے مادہ ہے، اس کا تعلق سمندر میں پائے جانے والے نایاب کچھووں کی نسل سے ہے جسے ماحولیاتی مسائل سمیت کئی وجوہ کی بناء پر شدید خطرات لاحق ہیں۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات جی ڈی اے کا کہنا تھا کہ گرین کچھوے کی موت کسی ماہی گیر کے پلاسٹک کے ممنوعہ جال میں پھنسنے سے ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ گرین کچھوےکی نایاب نسل گوادر، پسنی اور اورماڑہ کے سمندر میں پائی جاتی ہے تاہم گرین کچھوے کی جال میں پھنسنے سے موت کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔

گوادر کے علاوہ اورماڑہ سے بھی رواں ماہ گرین کچھوےک ے مردہ حالت میں پائے جانے کے تین واقعات رپورٹ ہوئے لیکن اس طرح کے اصل واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہے، یہ وہ واقعات ہیں جو کہ انسانی آبادی ہونے کی وجہ سے رپورٹ ہوجاتے ہیں تاہم کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں سے یہ واقعات رپورٹ نہیں ہو پاتے۔

اس بناء پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ گرین کچھوے کی نایاب نسل کو مکران کے ساحلوں پرشدید خطرات لاحق ہیں، اس لیے اس کے تحفظ کے لیےمؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، ان قیمتی اور نایاب نسل کے کچھووں کی نسل کشی کا اہم سبب ٹرالر مافیا کے پاس ماہی گیری میں استعمال ہونے والے ممنوعہ جال ہوتے ہیں، ان جالوں میں روزانہ اس قسم کے نایاب آبی جانور پھنس کر مر جاتے ہیں۔

اسسٹنٹ ڈائریکتر ماحولیات عبدالرحیم کاکہناتھا کہ گرین کچھوے کو سانس لینے کے لیے ہر پانچ دس منٹ کے بعد سطح سمندر پر آنا پڑتا ہے اور ماہی گیروں کے نہ نظر آنے والے جال میں پھنس جانےکی وجہ سے اس کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ سطح سمندر پر آسکے جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات جی ڈی اے کے مطابق گرین کچھوےکی یہ نسل اس قدر نایاب ہےکہ تقریباً ایک ہزار انڈوں میں سے ایک کچھوا ہی زندہ رہتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہناتھا کہ گرین کچھوے کا کچھ لوگ بیماریوں سے شفاء کے لیےگوشت استعمال کرتے ہیں اور کچھ فالج سےعلاج کے لیے خون بھی جب کہ اس کے انڈے بھی کھانے کے  لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں جو یہ کچھوا ساحلی ریت پر دیتا ہے۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات جی ڈی اے عبدالرحیم نے بتایا کہ کچھوے کی اس نسل اور دیگر سمندری حیات اور ان کے تحفظ کے لیے جامعہ کراچی کے شعبہ زولوجی کے پروفیسر ڈاکٹرعبدالکریم گبول تحقیق کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے باقی ممالک میں سمندری اور جنگلی حیات کو بچانے کے لیے طرح طرح کے سائنسی بنیادوں پر ریسرچ کی جاتی ہے لیکن افسوس ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہورہا بلکہ ہم اپنے ہاتھوں سے ان کی نسل کشی کر رہے ہیں۔

عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ سمندری حیات اور خاص طور پر گرین کچھوے کو شدید خطرات لاحق ہونے سے نبردآزما ہونے کی مؤثر کوششیں نہ کی گئیں تو آئندہ چند سال میں کچھوے کی یہ نسل معدوم ہونےکاخدشہ ہوگا۔

مزید خبریں :