بلوچستان کے دلفریب سیاحتی مقامات اور ورثہ حکومتی توجہ کا منتظر

خوبصورت لینڈ اسکیپ سے سجی سرزمین بلوچستان کا ہر رنگ حسین اور ہر روپ ہی سہانا ہے، بس اسے دنیا پر آشکار کرنے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

بلوچستان فطری ماحول پر مبنی خوبصورت مناظر، دلکش اور دلفریب سیاحتی مقامات اور ثقافتی ورثے سے جگمگاتی سرزمین ہے۔ خوبصورت لینڈ اسکیپ سے سجی سرزمین بلوچستان کا ہر رنگ حسین اور ہر روپ ہی سہانا ہے۔

اس سرزمین پر کہیں مٹیالے، کہیں سرخی مائل تو کہیں سرسبز پہاڑ ہیں تو کہیں خوبصورت فطری مناظر کا حُسن بکھیرتی وادیاں ہیں۔ان وادیوں میں قدرتی درے، غار اور صاف پانی کے گنگناتے چشمے دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دیتے نظر آتے ہیں۔

بولان میں واقع پیر غائب آبشار—۔

دوسری جانب مکران سے ملحقہ 7 سو کلومیٹر سے زائد طویل سمندری پٹی ہے جہاں کنڈ ملیر جیسا دلکش ساحل ہے۔ پسنی کے سمندر میں قدرتی جزیرہ استولہ اور پھر ہنگول کا وسیع وعریض نیشنل پارک بھی ہے۔

یہاں نادر جنگلی حیات اور ایک پہاڑی پر قدرت کا شاہکار 'امید کی شہزادی' (Princes of Hope) کا مجسمہ ہے جو دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتا ہے۔

پسنی میں استولہ جزیرے کا ایک منظر—۔

 یہی نہیں بلکہ کوئٹہ کے نواح میں خوبصورت وادی ہنہ، اوڑک اور ولی تنگی، بولان میں پیرغائب، کھجوری یا خضدار میں مولا چوٹک کا علاقہ یا پھر زیارت میں صنوبرکے جنگلات ہوں یا وہاں واقع قومی ورثہ کی حامل دیدہ زیب قائداعظم ریذیڈنسی،  یہ تمام سحرانگیز مقامات سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں ہیں۔

بلوچستان کو مہرگڑھ کی صورت میں 9 ہزار سال قدیم تہذیب کا مسکن ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ ڈیرہ بگٹی سے ملی سیکڑوں سال قدیم ڈائناسارز جسے بلوچی تھرم (Balochitherium) کہا جاتا ہے، ان کی باقیات ہوں یا پنجگور میں پائی جانے والی قدیم قبریں، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو ان مقامات کی کشش یہاں کھینچ لاتی ہے۔

کیچ میں سسی پنوں کا قلعہ ہو، لسبیلہ میں شیریں فرہاد کا مزار ہو یا اندرون سنگلاخ پہاڑوں میں ہنگلاج کا مندر، یہ سب امن اور محبت کے متوالوں کو مسحور کر دیتے ہیں۔

مکران کوسٹل ہائی وے، لسبیلہ—۔

بولان اور چمن کے پہاڑوں کا سینہ چیر کر تعمیر کی گئی انگریز دور کی سرنگیں اور وہاں بچھی ریلوے لائنیں بھی سیاحوں کو حیران کردیتی ہے۔ 

اسی طرح بولان اور ہرنائی کے پہاڑوں میں پائے جانے والے غار قدرت کا شاہکار ہیں۔ ان ہی غاروں میں سے ایک بولان کے علاقے میں واقع ملک کا سب سے بڑا غار ہے، جس کی لمبائی ایک ہزار 270 میٹر ہے۔

وادی بائیوہو، موسیٰ خیل—۔

بلوچستان کی یہ خوبصورتی تو اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سیاحتی مقامات اور ورثے کی ترقی اور ان تک رسائی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے تاہم اب حکومت سیاحتی پالیسی کی تشکیل کے لیے سرگرداں نظر آرہی ہے۔

اس حوالے سے صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت اور امور نوجوانان عبدالخالق ہزارہ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے اور سیاحت کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل صوبہ ہے مگر بدقسمتی سے یہ شعبہ ماضی میں نظرانداز رہا ہے اور اس پر کسی نےتوجہ نہیں دی۔

گوادر کوسٹ کا ایک منظر—۔

عبدالخالق ہزارہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں فرانسیسی آرکیالوجسٹ بلوچستان کے علاقے مہرگڑھ  آئے اور انہوں نے اس قدیم تہذیب کو دنیا کے سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا مگر ہم اس حوالے سےکوئی خاص کام نہیں کرسکے، لیکن اب حکومت کا پلان ہے کہ وہ اس جانب بھرپور توجہ دے گی۔

زیارت ریزیڈنسی—۔

اس صورتحال کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کی خوبصورتی کو دنیا پر آشکار کرنے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے جس سے سیاحت کا شعبہ ایک صنعت کے طور پر صوبے کی معاشی و اقتصادی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔