29 ستمبر ، 2018
کراچی میں فالودے والے کے اکاؤنٹ میں 2 ارب روپے سے زائد رقم کی موجودگی کا سراغ لگا لیا گیا، عبدالقادر کے اکاؤنٹ میں رقم ایک بزنس گروپ نے ٹرانسفر کی، بزنس گروپ کو بھی تفتیش کے لیے طلب کرلیا گیا۔
عبدالقادر کے اکاؤنٹ میں دوارب 25 کروڑ روپے 15-2014 میں منتقل ہوئے، عبدالقادر اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی سے لاعلم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ میں انگوٹھا چھاپ آدمی ہوں، اردو میں دستخط نہیں کرسکتا، انگریزی میں کیسے کروں گا؟
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں ایک شربت فروش کے اکاؤنٹ میں دو ارب روپے سے زائد رقم کی موجودگی پر پولیس اور ایف آئی اے حرکت میں آ گئیں۔
اورنگی ٹاؤن سیکٹر 8 ایل کے رہائشی عبدالقادر کے بینک اکاونٹ میں دو ارب روپے سے زائد رقم موجود ہونے کے انکشاف کے بعد اس شخص کے گھر کے باہر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
چالیس گز کے گھر میں رہائش پزیر غریب شہری عبدالقادر کا کہنا ہے کہ اسے تو پتہ بھی نہیں کہ کب اس کا اکاؤنٹ کھلا اور اس میں رقم کہاں سے آئی۔
عبدالقادر کے مطابق اس کے اکاؤنٹ میں 2 ارب سے زائد رقم کا اسے ایف آئی اے کے لیٹر کے ذریعے پتہ چلا اور پھر اُسے طلب بھی کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سرجانی ٹاؤن میں مکان خریدنے کی غرض سے ایک بینک اکاؤنٹ کھلوایا تھا لیکن وہ بھی تصویری بینک اکاؤنٹ تھا۔
عبدالقادر نے کہا کہ اسے جب اپنے اکاؤنٹ میں اتنی بڑی رقم کی موجودگی کا پتہ چلا تو اسے کسی قسم کی حیرانی نہیں ہوئی بلکہ وہ تو اپنی ریڑھی لیکر فالودہ شربت فروخت کرنے کے لیے چلا گیا تاکہ دیہاڑی لگائی جا سکے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بے نامی اکاؤنٹ کا کیس جو اب منی لانڈرنگ کیس میں تبدیل ہو چکا ہے، ممکن ہے کہ یہ اسی طرز کا کیس ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ اسی طرز کا کیس ہو جیسے اس سے قبل ایک کمپیوٹر کا کام کرنے والے شہری کے اکاؤنٹ میں 8 ارب روپے کا انکشاف ہوا تھا تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے حکام ہی اس معاملے کی تصدیق کر سکتے ہیں جب کہ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ بے نامی اکاؤنٹ کے حوالے سے جے آئی ٹی کام کر رہی ہے تو وہی اس معاملے پر بہتر بتا سکتی ہے۔
فالودے والے کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کرنے والے کا سراغ لگا لیا گیا
دوسری جانب کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون کے رہائشی اور فالودہ شربت بیچنے والے کے اکاونٹ میں سوا دو ارب روپے کی موجودگی کے معمہ حل ہوگیا ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اکاؤنٹ 2014 اور 2015کے دوران آپریشنل رہا اور اسی دوران رقم آئی جب کہ یہ رقم ایک بزنس گروپ کی ہے۔
ذرائع مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں جن کو ٹریڈ اکاؤنٹس کہاجاتا ہے اور جس کے نام پر کھولا جاتا ہے، اسے رقم بھی دی جاتی ہے۔
شہری قادر کے اکاونٹ میں رقم 2014 اور 2015 کے دوران آئی، اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے ایک ایس ٹی آر یعنی مشکوک ترسیلات کی رپورٹ 2016 کے آخر میں ایف آئی اے کو بھیجی تھی۔
2016کے آخر میں بھیجی گئی ایس ٹی آر پر ایف آئی اے نے شہری کو طلب کیا اور تفصیلات حاصل کیں۔
ذرائع نے بتایا کہ جس بزنس گروپ نے شہری کے نام پر اکاؤنٹ کھولا، اس کے عہدیداروں کو بھی طلب کیاجاچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس طرح کے اکاؤنٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں، دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔