پاکستان
Time 23 اکتوبر ، 2018

سعودیہ نے خاشقجی کے قتل کا اعتراف کیا، الزام ایجنسیوں پر لگانے سے مطمئن نہیں: اردوان


استنبول: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ترکی کے پاس جمال خاشقجی کے منصوبہ بندی کے تحت قتل کے شواہد ہیں اور قتل کا الزام انٹیلی جنسی ایجنسیوں کے لوگوں پر لگانے سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔

ترک پارلیمنٹ میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان نے کہا کہ جمال خاشقجی کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور قتل کی منصوبہ بندی 29 ستمبر کو کی گئی، دو سعودی ٹیمیں خاشقجی کے قتل میں ملوث تھیں، ترکی واضح کرچکا ہے کہ وہ اس قتل پر خاموش نہیں رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ سعودیوں کا دعویٰ ہے کہ خاشقجی لڑائی کے دوران مارا گیا، قتل کے 17 دن بعد سعودی عرب نے قتل کا اعتراف کیا، قتل ہماری سرزمین پر ہوا اس لیے تحقیقات کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے، امریکی صدر سے اس معاملے پر تفصیل سے بات ہوئی ہے جب کہ سعودی بادشاہ سے گفتگو کے بعد مشترکا تحقیقاتی ٹیم بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

جمال خاشقجی قونصلیٹ سے واپس نہیں آئے: ترک صدر

ترک صدر کا کہنا تھا کہ سعودی جنرلز اور 9 افراد پر مشتمل سعودی ٹیم سعودی عرب پہنچی تھی، خاشقجی کو 2 اکتوبر کو سعودی قونصلیٹ میں جانے کے بعد دوبارہ نہیں دیکھا گیا، سعودی حکام نے پہلے تردید کی کہ خاشقجی قونصلیٹ آنے کے بعد لاپتا ہوا، سعودی قونصل خانے سے کیمرے ہٹا دیا گئے، کیمرے کی ویڈیو سے پتا چلتا ہےکہ جمال خاشقجی قونصلیٹ سے واپس نہیں آئے، ایک سعودی اہلکار جمال خاشقجی کا روپ دھار کر قونصل خانے سے باہر آیا۔

رجب طیب اردوان نے مزید کہا کہ ہماری پولیس اور انٹیلی جنسی ایجنسی اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے، سعودی قونصلیٹ ترک سرزمین پر ہے اور جنیوا کنونشن کسی کو سفارتی استثنیٰ فراہم نہیں کرتا، معاملے اب آگے بڑھ گیا ہے، خاشقجی کا قتل بین الاقوامی معاملہ ہے اس کا بین الاقوامی سطح پر قتل کا نوٹس لیا گیا، مشترکہ ورکنگ گروپ اس معاملے پر بات کررہا ہے، ، سفارتی استثنیٰ کے باوجود قتل کی تحقیقات ہماری ذمہ داری ہے۔

ترک حکام کے پاس بہیمانہ قتل کے شواہد موجود ہیں: طیب اردوان

ترک صدر نے سوال کیا کہ پندرہ رکنی سعودی ٹیم ترکی میں کیا کررہی تھی؟ ٹیم کس کے حکم پر ترکی آئی تھی؟ سعودی قونصلیٹ نے فوری طور پر قتل کی تفتیش شروع کیوں نہ کی؟ خاشقجی کی لاش کو ٹھکانے والا مقامی سہولت کار کون تھا؟

انہوں نے کہا کہ شواہد بتاتے ہیں کہ خاشقجی کا بہیمانہ قتل ہوا، ترک حکام کے پاس شواہد ہیں کہ خاشقجی کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، آخر سعودی حکام نے بار بار متضاد بیانات کیوں دیئے؟ سعودی حکام کو ان تمام سوالوں کے جواب دینا ہوں گے، ترکی اور پوری دنیا صرف اس وقت مطمئن ہوں گے جب قتل میں ملوث سارے افراد کا احتساب ہوگا۔

طیب اردوان کا کہنا تھاکہ سعودیوں نے مان لیا کہ خاشقجی کا قتل ہوا ہے اور جو اس قتل میں ملوث ہیں انہیں انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا، دیگر ممالک بھی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں تعاون کریں، خاشقجی کے قتل کی پلاننگ اور اس پرعمل کرنے والوں کے خلاف کارروائی پر ہی دنیا مطمئن ہوگی، سعودی حکام کو اس قتل کے مںصوبہ ساز کا نام ظاہر کرنا چاہیے۔

ترک صدر کا جمال خاشقجی کے قتل پر آزاد کمیشن بنانے پر زور

ترک صدر نے سعودی صحافی کے قتل کی تحقیقات کیلئے آزاد کمیشن بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ واقعہ استنبول میں پیش آیا لہٰذا ملزمان کے خلاف مقدمہ استنبول میں ہی چلنا چاہیے ، یہ میری تجویز ہے تاہم مقدمہ استنبول میں چلانےکا استحقاق سعودی عرب کا ہے۔

جمال خاشقجی کے قتل کا پس منظر

خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو اپنی ترک منگیتر سے شادی کے لیے اپنی پہلی بیوی کو طلاق کی تصدیق کے لیے استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے گئے اور پھر لاپتہ ہو گئے۔

ترک پولیس کی جانب سے شبہ ظاہر کیا گیا کہ سعودی صحافی کو سعودی قونصلیٹ کے اندر قتل کر دیا گیا ہے تاہم سعودی عرب کی جانب سے ابتدائی طور پر اس واقعے سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا گیا۔

جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے باعث  سعودی عرب کی جانب سے اعتراف کیا گیا۔

مزید خبریں :