24 اکتوبر ، 2018
پولیو ایک ایسا موذی مرض ہے جو اگر خدانخواستہ لاحق ہوجائے تو وہ متاثرہ بچے کے لیے جسمانی معذوری کی شکل میں ساری زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان اب بھی دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے، جو پولیو کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں، خصوصاً صوبہ بلوچستان میں تو رواں عشرے کے اوائل میں پولیو کےکیسز کی تعداد کافی تشویش ناک رہی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بہتری آئی ہے۔
2011 میں بلوچستان سے پولیو کے 73 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ 2014 میں 25 کیسز رپورٹ ہوئے۔ بعد ازاں 3 برس کے عرصہ میں 10 اور رواں برس اب تک پولیو کے 3 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ پولیو کی صورتحال اگرچہ بہتر ہے تاہم ان کاعزم ہے کہ اس وائرس کا صوبے سے مکمل خاتمہ کیا جائے۔
اس حوالے سے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایمرجنسی آپریشن سینٹر برائے انسداد پولیو بلوچستان راشد رزاق نے بتایا کہ صوبے سے پولیو کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ہدف یہی ہے کہ صوبے کو پولیو سے پاک کیا جائے، لیکن یہ محکمہ صحت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز اور شعبہ ہائے زندگی کےافراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسداد پولیو کی کاوشوں میں بھرپور ساتھ دیں۔
انہوں نے پولیو کی روک تھام کےحوالے سے یونیسیف اور دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون کو بھی سراہا۔
محکمہ صحت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز اور شعبہ ہائے زندگی کےافراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسداد پولیو کی کاوشوں میں بھرپور ساتھ دیں
دیکھا جائے تو بلوچستان میں پولیو کے حوالے سےصورتحال کی بہتری میں کلیدی کردار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی خواتین پولیو ورکرز کا رہا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں کے دوران انسداد پولیو ٹیموں پر حملوں کے چند ناخوشگوار واقعات کے باوجود بھی یہ خواتین صوبے سے پولیو کے خاتمے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس میں رواں سال جنوری میں کوئٹہ کے نواحی علاقے شالکوٹ میں رونما ہونے والا افسوسناک واقعہ بھی شامل ہے جس میں ایک خاتون پولیو ورکر اور ان کے ہمراہ بچی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
پولیو کے خاتمےکی کوششوں میں سرگرم کوئٹہ کی 2 خواتین پولیو ورکرز سے جب اس حوالے سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو کی مہم کے دوران انہیں بےحد مشکل ہوتی ہے، جس کی بڑی وجہ لوگوں میں آگہی کی کمی اور ان کے خراب رویے ہیں۔
ان ورکرز کا کہنا تھا کہ انہیں لوگوں کو پولیو سے بچاؤ کےقطرے پلانے کے حوالے سے قائل کرنا پڑتا ہے لیکن وقت گزرنے کےساتھ اس میں بہتری آرہی ہے اور ان کا مقصد یہی ہے کہ کوئی بھی بچہ پولیو کاشکار نہ ہو۔
صوبائی محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں پولیو سے پاک معاشرے کا خواب جلد شرمندہ تعبیر ہوگا، لیکن اس کے لیے تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد، خصوصاً والدین کا تعاون ناگزیر ہے۔