Time 31 اکتوبر ، 2018
پاکستان

آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزام ثابت نہیں ہوا، سپریم کورٹ کا بری کرنے کا حکم


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بناء پر بری کردیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والی آسیہ بی بی کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ آسیہ بی بی اگر کسی دوسرےکیس میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔

57 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا، جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا 20 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی شامل ہے، جس میں چیف جسٹس کے فیصلے کی تائید کی گئی ہے۔

تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ فیصلے میں کئی قرآنی آیات اور علامہ اقبال کے شعر کا بھی حوالہ دیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں باچا خان یونیورسٹی میں توہین کے الزام میں قتل کیے گئے طالب علم مشعال خان سمیت توہین مذہب کے دیگر کیسز کا بھی حوالہ دیا۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا، 'یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کوئی کلیم (دعویٰ) کرتا ہے تو اس کو ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرے، تمام کارروائی مقدمہ میں ملزم کے ساتھ بے گناہی کا قیاس ہمیشہ رہتا ہے، چہ جائیکہ استغاثہ شہادتوں کی بنیاد پر ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ملزم کے خلاف جرم کا ارتکاب ثابت نہ کردے'۔

عدالتی فیصلے کے مطابق، 'جہاں کہیں بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے، اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے، جو کہ فوجداری انصاف کی محفوظ فراہمی کے لیے انتہائی ضروری ہے'۔

جسٹس ثاقب نثار نے لکھا، 'شبہ جس قدر بھی مضبوط اور زیادہ ہو، کسی طور پر بھی فوجداری مقدمے میں ضروری بار ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا، ملزم اور گواہان/ شکایت گزار کے مابین عناد کی موجودگی میں عام طور پر گناہ یا بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے اعلیٰ ترین معیارِ ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، اگر استغاثہ کے گواہان ملزم کے لیے عناد رکھتے ہوں تو وہ شک کے فائدے کے اصول کی بناء پر بریت کا حقدار ہوتا ہے'۔

آخر میں چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا، 'متذکرہ بالا وجوہات کی بناء پر یہ اپیل منظور کی جاتی ہے۔ عدالت عالیہ اور ابتدائی سماعت کی عدالت کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔نتیجتاً اپیل گزار کو دی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور اس کو تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔ اگر کسی دیگر فوجداری مقدمے میں اس کو قید رکھنا مقصود نہیں تو اس کو فوری طور پر جیل سے رہا کیا جائے گا'۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اضافی نوٹ

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے نوٹ میں تحریر کیا، 'مقدمہ ہذا میں ہر واقعاتی زاویئے کے متعلق استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ شہادتوں میں واضح اور یقینی تضادات سے یہ افسوسناک اور ناقابلِ انکار تاثر قائم ہوتا ہے کہ ان تمام افراد، جن کے ذمہ شہادتیں اکٹھی کرنا اور تفتیش کرنے کا کام تھا، نے ملی بھگت سے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ سچ نہیں بولیں گے یا کم از کم مکمل سچائی کو باہر نہیں آنے دیں گے'۔

انہوں نے مزید لکھا، 'حتیٰ کہ اگر مقدمہ ہذا میں اپیل گزار کے خلاف عائد الزامات میں ذرہ بھر بھی سچائی ہے، تب بھی استغاثہ کی شہادتوں میں بیان کردہ سنگین تضادات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ مقدمہ ہذا میں سچائی کو بہت سی ایسی باتوں سے گذمڈ کیا گیا ہے، جو سچ نہیں ہیں۔'

آخر میں جسٹس کھوسہ نے لکھا، 'جو کچھ بھی اوپر بیان کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ استغاثہ اپیل گزار کے خلاف اپنا مقدمہ بلا شک و شبہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے، لہذا اپیل ہذا کو منظور کیا جاتا ہے، ذیلی عدالتوں کی جانب سے اپیل گزار کو دی گئی اور برقرار رکھی گئی سزا ختم کی جاتی ہے اور اس کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے الزام سے بری کیا جاتا ہے۔'

آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ


آسیہ بی بی کیس— کب کیا ہوا؟

صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں یہ واقعہ جون 2009 میں پیش آیا، جب فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین کا مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جھگڑا ہوا، جس کے بعد آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔

بعدازاں آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد قاری سلام نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ 5 روز بعد درج کی گئی واقعے کہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار بھی کیا۔

امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن جس مکان کا ذکر کیا گیا، وہ بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں توہین رسالت کے جرم میں 295 سی کے تحت انھیں سزائے موت سنا دی، جسے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

تاہم لاہور ہائیکورٹ نے اکتوبر 2014 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

جس پر 2014 میں ہی آسیہ بی بی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں۔

ان اپیلوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے رواں ماہ 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جو آج سنایا گیا اور عدالت نے آسیہ بی بی کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

مزید خبریں :