15 نومبر ، 2018
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں اور نواز شریف آج مسلسل دوسرے روز عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 151 سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔
گزشتہ روز نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر استثنیٰ مانگا اور آج انہوں نے قطری شہزادے شیخ حمد بن جاسم آل ثانی کے خطوط کے حوالے سے کہا کہ ان سے میرا کوئی تعلق نہیں، کسی حیثیت میں کسی بھی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا۔
نواز شریف نے کہا کہ میرا نام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں، انہوں نے واجد ضیاء کے بیانات پر بھی اعتراضات اٹھائے اور کمرہ عدالت میں اپنے وکیل خواجہ حارث سے مشورہ کرتے رہے۔
یاد رہے کہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران شریف خاندان کی قطری شہزادے کے خطوط بطور ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے جس میں قطری شہزادے نے لندن فلیٹس کے لیے شریف خاندان کے پاس آنے والے سرمایہ سے متعلق بیان دیا۔
سابق وزیراعظم نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 1999 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا اور ریکارڈ آج تک ایجنسیوں نے واپس نہیں کیا، لوکل پولیس اسٹیشن میں اس حوالے سے شکایت بھی درج کرائی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
نواز شریف نے کہا 'جج صاحب ہمارے ساتھ یہ صرف 1999 میں نہیں ہوا، یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے، ہمارے خاندان کی درد بھری کہانی ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ 1972 میں پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل اتفاق فاؤنڈری کو قومیا لیا گیا، کسی نے نہیں پوچھا کہ کھانے کے پیسے بھی آپ کے پاس ہیں یا نہیں۔
جے آئی ٹی کے 10 والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، کوئی قابل قبول شہادت نہیں: نواز شریف
نواز شریف نے کہا 'میں تو 1972 میں سیاست میں بھی نہیں تھا، میں نے 80کی دہائی میں سیاست شروع کی۔
نواز شریف کے تحریری بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا ہے، سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ جے آئی ٹی کے دس والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، کوئی قابل قبول شہادت نہیں، میرے ٹیکس رکارڈ کے علاوہ جے آئی ٹی کی طرف سے پیش کی گئی کسی دستاویز کا میں گواہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریکارڈ میں نے خود جے آئی ٹی کو فراہم کیا تھا اور میرے خلاف شواہد میں ایم ایل ایز پیش کئے گئے، سعودی عرب سے ایم ایل اے کا کوئی جواب ہی نہیں آیا جب کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والا ایم ایل اے کا جواب درست مواد پر مبنی نہیں۔
نواز شریف اب تک مجموعی 151 سوالات میں سے 89 کے جواب دے چکے ہیں، گزشتہ روز انہوں نے 44 سوالات کے جواب دیے تھے، عدالت نے انہیں جانے کی اجازت دیتے ہوئے دوپہر 2 بجے دوبارہ طلب کرلیا۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کر رہی ہے، اس سے قبل احتساب عدالت نے انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
سابق وزیراعظم کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے فاضل جج ارشد ملک کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن 17 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔
احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا بھی امکان ہے۔
نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔
عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔
نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔
شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی جو اس وقت ریفرنسز پر سماعت کر رہے ہیں۔