وزیراعظم نے کرپشن کے خاتمے، طرز حکمرانی میں بہتری لانے، بیرونی ملک منتقل پاکستانی پیسہ واپس لانے کے علاوہ کفایت شعاری مہم کے ذریعے عوام کا پیسہ بچانے جیسے وعدے کیے۔
29 نومبر ، 2018
وزیراعظم عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام سے کئی وعدے کیے اور انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے ابتدائی 100 روز کے دوران تبدیلی لانے کی یقین دہانیاں بھی کرائیں، وزیراعظم نے کرپشن کے خاتمے، طرز حکمرانی میں بہتری لانے، بیرونی ملک منتقل پاکستانی پیسہ واپس لانے کے علاوہ کفایت شعاری مہم کے ذریعے عوام کا پیسہ بچانے جیسے وعدے کیے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق اقتدار کے 100 روز کے دوران کیا حاصل کیا، اس دوران اسے کن ناکامیوں اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑا، اس حوالے سے ایک نظر ڈالتے ہیں:
20 اگست: وفاق میں حکومت بنانے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنانے کا موقع ملا، جس میں ان کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے اہم کردار ادا کیا۔
22 اگست: نومنتخب وزیراعظم نے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے بھارت کو تمام تنازعات کے لیے مذاکرات کی دعوت دی اور حکومت نے اعلان کیا کہ سرکاری ٹی وی کو مکمل ایڈیٹوریل آزادی حاصل ہوگی۔
3 ستمبر: حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق 5 سال کے دوران ملک بھر میں 10 ارب درخت لگانے کی مہم کا آغاز کیا۔
4 ستمبر: تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن جماعتوں میں پھوٹ پڑنے کے بعد صدارت کے لیے اپنا امیدوار کامیاب کرانے میں کامیاب رہی۔
16 ستمبر: حکومت نے سندھ اور پنجاب میں گورنر ہاؤسز کے دروازے عوام کے لیے کھولے۔
17 ستمبر: تحریک انصاف کے وعدے کے مطابق کفایت شعاری مہم کے تحت وزیراعظم ہاؤس کے زیراستعمال لگژری گاڑیوں کی نیلامی کا آغاز ہوا اور مرحلہ وار گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی کی گئی۔
30 ستمبر: اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سفارش کے باوجود حکومت نے عوام پر دباؤ نہ ڈالنے کی منظوری دی اور قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔
4 اکتوبر: حکومت نے نان فائلرز صارفین پر نئی کار اور زمین لینے پر عائد پابندی کی بحالی کا حکم دیا۔
15 اکتوبر: حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے کی حامی بھرتے ہوئے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے 30 رکنی کمیٹی بنائی۔
23 اکتوبر: سعودی عرب نے پاکستان کو 12 ارب ڈالر کا پیکج دینے پر رضامندی ظاہر کی، جس میں تین ارب ڈالر پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے اور 3 ارب ڈالر تیل کی خریداری کے لیے قبل از وقت ادائیگی کی مد کیلئے تھے۔
7 نومبر: وزیراعظم کے 5 روزہ دورہ چین کے بعد چین نے رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان سے 2.2 بلین ڈالر تک کی درآمدات بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی۔
7 ستمبر: حکومت نے ماہر اقتصادیات عاطف میاں کو اقتصادی مشاورت کونسل کا رکن نامزد کیا تاہم مذہبی جماعتوں کے دباؤ پر حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
17 ستمبر: وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان اور بنگالیوں کو شہریت دینے کا وعدہ کیا تاہم بعد میں وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں کہا کہ اس قسم کا اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
4 اکتوبر: ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر تحریک انصاف کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پولیس افسر کے تبادلے پر دو انکوائریاں ٹیمیں بنائی گئیں ، ایک ٹیم نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو کلین چٹ دی تاہم اس رپورٹ کو اعلیٰ عدالت نے مسترد کیا، اور دوسری رپورٹ میں عثمان بزدار کو پولیس افسر کے تبادلے کا ذمہ داری قرار دیا گیا۔
8 اکتوبر: وزیراعظم عمران خان نے اپنے وعدے کے برعکس آئی ایم ایف سے رجوع کی منظور دی اور وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے کہا کہ آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات شروع کیے جارہے ہیں۔
9 اکتوبر: پنجاب پولیس میں اصلاحات بھی عمران خان کے وعدوں میں سے ایک وعدہ تھا، اور اس وعدے کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب آئی جی پنجاب طاہر محمود کو ایک ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا جس پر پولیس ریفارمز کمیشن کے سربراہ ناصر خان درانی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور اس عہدے پر اب تک کسی کو تعینات نہیں کیا گیا۔
14 اکتوبر: تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں 9 نشستیں کھودیں جو اس نے اس سے قبل جیتی تھیں، ہارنے والی ان نشستوں میں وہ دو نشستیں بھی شامل ہیں جو وزیراعظم عمران خان نے چھوڑی تھیں۔
21 اکتوبر: تحریک انصاف گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان کی خالی کردہ سیٹ جیتنے میں ناکام رہی، بعدازاں شاہ فرماں نے اعتراف کیا کہ اپنے بھائی کے لیے پارٹی ٹکٹ لینا غلطی تھی۔
28 اکتوبر: انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کے اراکین کو اس شرط پر اپنی جماعت میں شامل کیا کہ حکومت کے قیام کے بعد 100 روز میں جنوبی پنجاب کے صوبے کا اعلان کیا جائے گا، لیکن اس وقت تک اس حوالے سے وزیراعلیٰ نے صرف ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
31 اکتوبر: وزیر خزانہ اسد عمر حکومت سنبھالنے سے قبل پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو غیرمنصفانہ قرار دیتے تھے، اور پی ٹی آئی حکومت میں وزارت خزانہ کی منظوری کے بعد پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے، ڈیزل 6 روپے 37 پیسے اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔
2 نومبر: وزیراعظم عمران خان نے فیض آباد میں دھرنا دینے والی سیاسی جماعت تحریک لبیک کے خلاف سخت ایکشن لینے کا کہا لیکن حکومت نے مظاہرین سے ایک معاہدہ کیا، حکومت کا مظاہرین سے معاہدے کو سیاسی حلقوں میں ریاست کی عملداری میں ناکامی سے تعبیر کیا گیا۔
14 نومبر: سینئر پولیس افسر طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور دو ہفتے تک ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا اور حکومت ان کی پاکستان میں ہی موجودگی پر بضد رہی تاہم سوشل میڈیا پر تصاویر منظرعام پر آنے کے بعد ان کی لاش افغانستان سے لائی گئی۔
19 اگست: سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی عمران علی شاہ کی ایک ویڈیو پر از خود نوٹس لیا جس میں انہیں ایک شہری پر تشدد کرتے دیکھا جاسکتا تھا۔
25 اگست: امریکی وزیر خارجہ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان فون کال پر بات چیت پر ایک تنازع کھڑا ہوا، واشنگٹن کی جانب سے کہا گیا کہ بات چیت کے دوران دہشتگردی پر بات چیت ہوئی تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے اس کی تردید کی جاتی رہی۔
27 اگست: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے وزیراعظم عمران خان کے پی ایم ہاؤس سے بنی گالہ تک ہیلی کاپٹر پر 50 سے 55 روپے فی کلو میٹر خرچ کے بیان نے بڑا تنازعہ کھڑا کیے رکھا، جس پر سوشل میڈیا صارفین اور اپوزیشن نے بھی شدید تنقید کی جس پر وزیراطلاعات کو کہنا پڑا کہ انہوں نے یہ گوگل پر سرچ کیا تھا۔
28 اگست: ڈی پی او پاکپتن کو خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق خاوند خاور مانیکا سے معافی نہ مانگنے پر تبادلہ کیا گیا، اس تبادلے نے تحریک انصاف کے میرٹ پر کئی سوالات اٹھائے۔
29 اگست: تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین نے اپنی جماعت کے قائد پر ہی الزام لگایا کہ وہ کراچی سے منتخب اراکین کو نظرانداز کر رہے ہیں، جس پر دیگر پارٹی اراکین کی جانب سے شدید ناراضگی کے ساتھ جملے بازی کی گئی۔
13 ستمبر: تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے 2 حاضر سروس ڈپٹی کمشنرز کو اظہار وجوہ کے نوٹس بھیجے، جنہوں نے تحریک انصاف کے دو ارکان اسمبلی میں سیاسی مداخلت کا الزام لگایا، یہ معاملہ کئی روز تک میڈیا کی خبروں کی زینت بنارہا۔
27 ستمبر: سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے گئے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی کابینہ اجلاس میں شریک ہونے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر زیر بحث رہی جس پر حکومت کی جانب سے مختلف تصریحات پیش کی جاتی رہیں۔
28 ستمبر: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے مخالف اراکین قومی اسمبلی کو 'ڈاکو' کہنے پر کئی ہفتوں تک حکومت اور اپوزیشن اراکین میں لفظی جنگ جاری رہی جو بالاخر فواد چوہدری کی معذرت کے بعد ختم ہوئی۔
یکم اکتوبر: تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ملک کرامت کھوکھر کا نام قبضہ مافیا منشا بم کی گرفتاری روکنے کے معاملے میں سامنا آیا، جس پر سپریم کورٹ نے انہیں طلب کیا اور یہ معاملہ کئی روز تک ٹی وی چیلنجز کے پروگراموں میں موضوع بحث رہا۔
17 اکتوبر: وزیراعظم عمران خان نے اپنے قریبی دوست صاحبزادہ عامر جہانگیر کو اپنا غیرملکی سرمایہ کاری کا معاون خصوصی تعینات کیا اور یہ معاملہ اس وقت تنازع کا شکار بنا جب عامر جہانگیر سے متعلق خبریں سامنے آئیں کہ وہ برطانیہ میں مبینہ طور پر دھوکہ دہی کے کیس میں ملوث رہے ہیں۔
18 اکتوبر: تحریک انصاف کی حکومت نے ملتان، لاہور اور راولپنڈی میں چلنے والی میٹرو بس کے کرائے پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کا اعلان کیا جس پر شہریوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔
22 اکتوبر: دورہ سعودی عرب کے موقع پر وزیراعظم نے غیرملکی میڈیا کو کہا کہ پاکستان کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، وزیراعظم کا یہ بیان ملکی سیاست میں طوفان بن کر سامنے آیا تاہم تحریک انصاف کے وزرا کی جانب سے اس بیان کی تردید کی جاتی رہی۔
24 اکتوبر: سپریم کورٹ نے عمران خان کے قریبی دوست اور مشیر برائے غیرملکی سرمایہ کار زلفی بخاری کی تقرری کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دی۔
25 اکتوبر: اسرائیلی اخبار کے ایڈیٹر کی ایک ٹوئٹ نے اس وقت ملکی سیاست میں ہلچل مچائی جب کہا گیا کہ ایک اسرائیلی نجی طیارہ تل ابیب سے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچا تاہم حکومت کی جانب سے اس کی تردید کی جاتی رہی جس کے باوجود یہ بحث کئی روز تک جاری رہی۔
29 اکتوبر: سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کا حکومتی فیصلہ معطل کیا، آئی جی اسلام آباد کو وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی کی شکایت پر عمل کرنے سے انکار پر عہدے سے ہٹادیا تھا جب کہ تحقیقاتی ٹیم نے بھی اعظم سواتی کو ذمہ دار قرار دیا۔
11 اکتوبر: ایک ویڈیو منظرعام پر آئی جس میں مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کو جہانگیر ترین سے گورنر پنجاب کی شکایتیں لگاتے دیکھا گیا، سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تحریک انصاف میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں اور یہ تنازع کئی روز تک میڈیا کی زینت بنارہا۔
18 نومبر: وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن کے دفاع میں بیان تنازع کا شکار بنا رہا جس میں انہوں نے کامیاب لیڈر کی نشانی بتاتے ہوئے کہا کہ کامیاب لیڈر یوٹرن لیتا ہے، ایڈوف ہٹلر اور نیپولین بوناپارٹ نے یوٹرن نہ لے کر غلطی کی۔