پاکستان
Time 03 دسمبر ، 2018

نواز شریف کیخلاف العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل مکمل

العزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں البتہ ملز کی فروخت کے معاہدے میں حسین نواز کا نام ہے، نیب پراسیکیوٹر۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر نے حتمی دلائل مکمل کرلیے جب کہ فاضل جج نے سوال کیا کہ ملزمان نے العزیزیہ اسٹیل ملز کی دستاویزات کیوں پیش نہیں کیں، اس سوال کا جواب دینا ہوگا، وکلا صفائی نوٹ کرلیں۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنس کی سماعت کی جس کے دوران نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے اپنے حتمی دلائل آج مکمل کیے۔

کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی اور کل نواز شریف کے وکیل حتمی دلائل کا آغاز کریں گے۔

آج سماعت کے دوران جج ارشد ملک نے نواز شریف کے وکلا کو ہدایت کی کہ ملزمان نے العزیزیہ کی دستاویزات کیوں پیش نہیں کیں، سپریم کورٹ نے طلب کی تھیں تو وہاں دستاویزات پیش کردیتے، اس سوال کا جواب دینا ہوگا نوٹ کرلیں۔

فاضل جج نے ریمارکس دیے 'العزیزیہ کے قیام کی وضاحت آگئی تو ہل میٹل کا معاملہ خود حل ہوجائے گا'۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان نے العزیزیہ کو چلانے سے متعلق کوئی دستاویز نہیں دی اور یہ ناقابل یقین ہے کہ 3 دفعہ وزیراعظم رہنے والا شخص کہے کہ اُسے کچھ پتہ نہیں۔

سیاست میں آنے کے بعد نواز شریف نے اپنے شیئرز بچوں کے نام پر منتقل کرنا شروع کیے، نیب پراسیکیوٹر

نیب پراسیکیوٹر نے کہا سیاست میں آنے کے بعد نواز شریف نے اپنے شیئرز بچوں کے نام پر منتقل کرنا شروع کیے، ان کا روز مرہ خرچ ان کی آمدن سے کہیں زیادہ ہے، العزیزیہ اسٹیل مل کے اصل مالک کو چھپانے کیلئے سازش کی گئی، بے نامی دار خود کو اصل مالک کہہ رہے ہیں اور اپنے اصل مالک ہونے کا ثبوت نہیں دے رہے۔

نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کا کہنا تھا کہ کیس کے تمام ملزم اپنا اپنا کردار نبھا رہے ہیں، جلا وطنی میں سعودی عرب میں نواز شریف کو شاہی مہمان کہا گیا نہ کہ میاں شریف کو اور سعودیہ پہنچتے ہی 4 ماہ میں العزیزیہ نے آپریشن شروع کردیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'العزیزیہ کا اتنا بڑا سیٹ اپ تھا ،دکان تو نہیں تھی جو اتنا جلدی کام شروع کردے،  یہ سارے عناصر ہیں جو وائٹ کالر کرائم میں آتے ہیں'۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں قطری کے پہلے اور دوسرے خط میں تضاد ہے، پہلے خط میں قطری نے صرف اتنا کہا 12 ملین درہم کے بدلے ایون فیلڈ فلیٹس دیے جب کہ دوسرے خط میں ورک شیٹ لگائی اور کہا گیا اپروول کے بعد فلیٹس دیے گئے اور اس پر قطری شہزادے کے دستخط بھی نہیں تھے۔

فاضل جج نے استفسار کیا 'آپ کیوں کہتے ہیں کہ قطری خطوط میں بیان کی گئی بات غلط ہے، قطری کا رولا چلا کہاں سے اور پہلی بار قطری خط کب پیش کیا گیا؟۔

یو اے ای کے جواب سے بھی پتہ چلتا ہے 12 ملین درہم قطر گئے ہی نہیں، نیب پراسیکیوٹر

نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'قطری ملزمان کا گواہ ہے لیکن انہوں نے اسے پیش ہی نہیں کیا، ہم نے قطری کا بیان قلمبند کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پاکستان نہیں آیا'۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا متحدہ عرب امارات کے جواب سے بھی پتہ چلتا ہے 12 ملین درہم قطر گئے ہی نہیں اور یو اے ای کے جواب کے بعد قطری خطوط کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

جج ارشد ملک نے سوال کیا خط میں پہلے فلیٹس کا کہا، پھر ملز سامنے آئیں تو ورک شیٹ میں یہ بھی شامل کرلیا اور جب قطری آیا ہی نہیں تو اس کے خطوط کی کیا حیثیت ہے؟۔

العزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں، نیب پراسیکیوٹر

نیب پراسیکیوٹر نے کہا ملزمان کا موقف ہے کہ العزیزیہ اسٹیل مل کے تین شراکت دار تھے، جج نے سوال کیا العزیزیہ اسٹیل مل کے کسی ریکارڈ میں میاں محمد شریف کا نام ہے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا العزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا العزیزیہ اسٹیل کی فروخت کے معاہدے میں حسین نواز کا نام ہے۔

جج ارشد ملک نے استفسار کیا پاناما کیس میں پہلے دن سے نواز شریف کا ایک ہی وکیل ہے یا تبدیل ہوئے؟، بعض دفعہ وکیل بدلنے سے مؤقف میں بھی تبدیلی آجاتی ہے، عدلیہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عدالت میں جھوٹ بولنا کلچر بن گیا ہے۔

فاضل جج نے کہا کہ مدعی، وکیل اور ملزم سب جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور پھر جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف پر مبنی سچا فیصلہ دے، یہ تو ایسے ہے کسی کو دال چنےکا سالن دے کر کہا جائے اس میں سے بوٹیاں نکالو۔

جج ارشد ملک نے کہا 'العزیزیہ کی وضاحت آجاتی ہے کہ وہ کیسے لگی تو اگلے کاروبار کا تو آپ کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے'۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا ' العزیزیہ کے قیام کی تو وضاحت نہیں کی گئی، ظلم تو ملزمان نے ریاست کے ساتھ کیا، بغل میں ریکارڈ رکھ کر بیٹھے رہے اور کہتے رہے کہ یہ ڈھونڈیں۔

نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔

نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔

شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی جو اس وقت ریفرنسز پر سماعت کر رہے ہیں۔

مزید خبریں :