’آپ خود منصف بن جائیں‘، چیف جسٹس کا پاکپتن اراضی کیس میں نواز شریف سے مکالمہ

سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پاکپتن میں دربار اراضی کیس میں 1985 میں بطور وزیراعلیٰ ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا—۔جیو نیوز اسکرین گریب

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکپتن دربار اراضی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا عندیہ دیا، تاہم سابق وزیراعظم نواز شریف نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ ان کا جےآئی ٹی کا تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پاکپتن میں دربار اراضی کیس میں 1985 میں بطور وزیراعلیٰ ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

نواز شریف پر 1985 میں بطور وزیراعلیٰ محکمہ اوقاف کی زمین واپسی کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا الزام ہے۔

گزشتہ سماعت پر عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کا جواب مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ وہ خود آکر وضاحت دیں۔

جس کے بعد گزشتہ روز نواز شریف نے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔

آج سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ وزیراعظم پاکستان تھے، آپ کے بہت سے فیصلے ہمارے سامنے آئے۔ عطاء الحق قاسمی کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تعیناتی کے آرڈر میں آپ کے دستخط نہیں تھے'۔

ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے پاکپتن دربار کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کے معاملے پر نواز شریف کے تحریری جواب پر ان کا موقف طلب کیا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے جواب دیا کہ 'یہ 32 سال پرانا واقعہ ہے اور میرے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے'۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'میں آپ کو کیس کا پس منظر بتاتا ہوں، محکمہ اوقاف کی زمین کے دعوے داروں نے کیس کیا اور ہائیکورٹ نے بھی قرار دیا کہ زمین محکمہ اوقاف کی ہے'۔

چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرکے ریمارکس دیئے کہ 'مقامی عدالت نے فیصلہ کر دیا تو آپ کے پاس بطور وزیراعلیٰ ڈی نوٹیفیکیشن کا اختیار نہیں تھا'۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 'آپ کو نوٹیفیکشن نہیں سمری منظور کرنی تھی، تاثر یہی ملے گا کہ آپ کی منظوری سے نوٹیفیکیشن جاری ہوا'۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'آپ کے پاس سمری آئی ہوگی، پرنسپل سیکرٹری وزیراعلیٰ پنجاب جاوید بخاری نے لکھا کہ وزیراعلیٰ کو دکھا کر دستخط کیے گئے'۔

جس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ 'ریکارڈ پر ایسا کوئی آرڈر نہیں جو میں نے جاری کیا ہو'۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'کیا محکمہ اوقاف کےساتھ فراڈ ہوا ہے؟'

نواز شریف نے جواب دیا کہ 'نوٹیفیکشن کا نمبر غلط ہونے کا معاملہ سامنے آیا تھا'۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'جاوید بخاری حیات ہیں؟'

جس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ 'جی جاوید بخاری حیات ہیں'۔

نواز شریف نے موقف اختیار کیا کہ 'میرا خیال ہے کہ نچلے لیول پر کوئی گڑبڑ ہوئی ہے، شاید سیکریٹری اوقاف نے اختیارات کے تحت 1971کے نوٹیفیکیشن کو ڈی نوٹیفائی کیا'۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'سیکریٹری اوقاف کی ایسی کوئی پاورز نہیں ہیں'۔

میرا جےآئی ٹی کا تجربہ اچھا نہیں، نواز شریف

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ 'ایک ایسی چیز آگئی ہے، جس کی تحقیق کی ضرورت ہے،کوئی ایسا طریقہ بتادیں جس پر آپ بھی متفق ہوں'۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے عندیہ دیا کہ 'ایف آئی اے سے تحقیقات کروا لیتے ہیں یا جےآئی ٹی بنا دیتے ہیں، جو اس معاملے کے حقائق معلوم کرلےگی'۔

تاہم سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ 'مجھے تحقیقات پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن میرا جےآئی ٹی کا تجربہ اچھا نہیں'۔

سابق وزیراعظم کی اس بات پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

ساتھ ہی نواز شریف نے تجویز دی کہ 'کسی اور سے انکوائری کرالیں'۔

تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'آپ خود منصف بن جائیں، انصاف کرنا صرف عدالتوں کا کام نہیں، آپ جیسے لیڈر بھی انصاف کرسکتے ہیں، آپ اپنے طور پر تحقیقات کرالیں'۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ تحقیق خود کرائیں، لیکن بیرسٹر ظفر اللہ سے نہ کرائیں، یہ سیاسی آدمی ہوگئے ہیں'۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 'میں چاہتا ہوں کہ 2 بار کا وزیراعلیٰ اور 3 بار کا وزیراعظم کلیئر ہو'۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے جواب دیا کہ 'آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے اتفاق کرتاہوں'۔

سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے نواز شریف سے استفسار کیا کہ 'تحقیقات کا طریقہ کار کیا ہو، تحریری طور پر عدالت کو بتا دیں'۔

اس کے ساتھ ہی پاکپتن ارضی کیس کی سماعت ایک ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

پاکپتن دربار اراضی کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ دیوان غلام قطب الدین نے 1985 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں اس حوالے سے مقدمہ دائر کیا تھا کہ پاکپتن دربار سے ملحقہ 14 ہزار کنال زمین 1969 کے ایک آرڈر کے تحت محکمہ اوقاف کو دے دی گئی، جبکہ یہ زمین ان کی ملکیت تھی۔

تاہم مقامی عدالت نے فیصلہ دیا کہ دربار سے ملحقہ اراضی محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے، اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ نے بھی برقرار رکھا، جس پر دیوان غلام قطب الدین اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گئے۔

ابھی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہی تھا کہ مبینہ طور پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ کی جانب سے 1969 کے آرڈر کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔

جس کے بعد دیوان غلام قطب الدین نے اس اراضی کو فروخت کردیا اور وہاں دکانیں وغیرہ تعمیر کردی گئیں۔

سپریم کورٹ نے 2015 میں پاکپتن میں دربار کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس کیس کی اب تک 14 سماعتیں ہوچکی ہیں۔ 2015 میں پاکپتن دربار اراضی کیس کی آٹھ، 2016 میں چار جبکہ 2017 میں کوئی سماعت نہیں ہوئی۔

رواں برس 2 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

مزید خبریں :