کھیل
Time 06 دسمبر ، 2018

عالمی ہاکی کپ کی کہانی

قومی ٹیم اس وقت انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی رینکنگ میں 13ویں نمبر پر ہے۔ فوٹو: پی ایچ ایف

14واں عالمی ہاکی کپ بھارت کے شہربھوبنیشور میں جاری ہے جس میں 16 ٹیمیں ارجنٹائن، نیوزی لینڈ، اسپین، فرانس،دفاعی چیمپئن آسٹریلیا، انگلینڈ، چین، آئرلینڈ، بھارت، بیلجیئم،کینیڈا، جنوبی افریقا، نیدرلینڈز، جرمنی، پاکستان اور ملائیشیا ایکشن میں ہیں۔

ہاکی کی دنیا میں طویل عرصے تک راج کرنے والے ٹیم پاکستان 8 برس بعد پہلی بار عالمی کپ میں شرکت کر رہی ہے۔

قومی ٹیم اس وقت انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی ٹاپ 20 رینکنگ میں 13ویں نمبر پر ہے۔

پاکستانی ہاکی ٹیم مایوس کن کارکردگی کے باعث 2014 عالمی کپ میں شرکت کرنے سے محروم رہی اور پھر 2016 میں ریو ڈی جنیرو اولمپکس میں بھی کوالیفائی نہیں کر سکی۔

بھارت میں جاری 2018 ہاکی ورلڈ کپ میں آسٹریلیا دفاعی چیمپئن ہے۔

کسی زمانے میں پاکستان بھی دفاعی چیمپئن ہوا کرتا تھا اور 1978 میں دوسری بار عالمی کپ جیتنے کے بعد بڑی کامیابی سے 1982 میں اپنے اعزاز کا دفاع بھی کیا تھا۔

اگر تاریخ پر نظر ڈورائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ نہ صرف عالمی ہاکی کپ متعارف کروانے کا سہرا پاکستان کو جاتا ہے بلکہ اس ٹرافی کا ڈیزائن بھی پاکستان نے تیار کیا تھا۔

یہ پاکستان ہی تھا جس نے 1969 میں بین الاقوامی ہاکی فیڈریشن کو فٹبال کے عالمی طرز پر ہاکی کپ ٹورنامنٹ شروع کرنے کی تجویز دی تھی۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدراور ایئر مارشل نورخان نے نہ صرف فروری 1971 میں لاہور میں پہلے ہاکی ٹورنامنٹ کے انعقاد بلکہ اس میں بطور انعام عطا کی جانے والی ٹرافی بھی دینے کی پیشکش کی۔

ایف آئی ایچ نے یہ تجویز 26 اکتوبر 1969 کو منظور کی اور 12اپریل 1970 میں برسلز میں ہونے والے ایف آئی ایچ کونسل اجلاس میں پاکستان میں پہلا عالمی ہاکی کپ کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا اور شیڈول بھی طے کر دیا کیا گیا۔

پاکستان نے پڑوسی ملک بھارت کو اس میگا ایونٹ میں شرکت کی دعوت دی لیکن دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑنے اور ملک دولخت ہونے کے بعد بین الاقوامی ہاکی فیڈریشن نے ایونٹ کا مقام تبدیل کرکے پاکستان سے بارسلونا کردیا۔

27 مارچ 1971 کو بیلجیئم میں پاکستانی سفیر ایچ ای مسعود نے ایف آئی ایچ کے صدر رینے فرینک کو خوبصورت ٹرافی پیش کی۔

اس ٹرافی کا ڈیزائن پاکستان کے ممتاز مصور شبیر احمد موجد نے تیار کیا اور اس کی تیاری میں تقریباً 50 ہزار روپے لاگت آئی۔

1971 میں پہلے ہاکی ورلڈ کپ کا انعقاد اسپین کے شہر بارسلونا میں ہوا جہاں پاکستان نے میزبان ٹیم اسپین کو زیر کر کے فتح کے جھنڈے گاڑے اور پہلے ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

اخترالسلام کے گول کی بدولت قومی ٹیم نے میزبان کیخلاف 0-1 سے کامیابی حاصل کی۔

دوسرا ورلڈ کپ 1974 میں ہوا جس میں پاکستان کو مغربی جرمنی کے ہاتھوں 0-1 ناکامی ہوئی اور چوتھی پوزیشن پر قومی ٹیم کی مہم ختم ہوئی۔

1975 عالمی کپ میں فائنل میں پاکستان کو بھارت کے خلاف شکست ہوئی اس کے بعد قومی ٹیم نے عالمی ایونٹ میں شاندار کم بیک کرتے ہوئے مسلسل دو ٹائٹلز جیتے۔

1978 ورلڈ کپ میں پاکستان نے اعصاب شکن مقابلے میں ہالینڈ کے خلاف 2-3 سے کامیابی حاصل کی۔

اختر رسول، اصلاح الدین اور احسان اللہ ایک، ایک بار گیند کو جال میں ڈالنے میں کامیاب ہوئے جب کہ 1982 میں بھارت کے شہر ممبئی میں ویسٹ جرمنی کو 1-3 سے زیر کیا۔ حسن سردار، منظور حسین اور سمیع اللہ خان نے ٹیم کو فتح سے ہمکنا رکیا۔ کلیم اللہ خان اس ورلڈ کپ میں 12 گولز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے۔

1986 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم سیمی فائنل میں رسائی تو حاصل نہ کرسکی لیکن گرین شرٹس نے بھارت کو سنسنی خیز مقابلے میں شکست دے کر 11 ویں پوزیشن حاصل کی۔

پاکستان نے پہلی بار 1990میں عالمی ہاکی کپ کی میزبانی کی اور فیصلہ کن معرکے میں ہالینڈ کے خلاف 1-3 سے ناکامی ہوئی۔

1994ورلڈکپ میں پاکستان نے دفاعی چیمپئن ہالینڈ سے شکست کا بدلہ لیا اور فائنل میچ ایک، ایک سے برابر ہونے کے بعد پینالٹی سٹروکس پر 3-4 سے کامیابی حاصل کی۔

یہ پاکستان کا چوتھا ٹائٹل تھا، اس کے بعد سے قومی ٹیم عالمی ٹائٹل جیتنے سے محروم ہے اور پاکستان ہاکی بدستور روبہ زوال ہے۔

پاکستان ہاکی کا سنہری دور1970 سے 1995 تک محیط رہا، پاکستان نے قومی کھیل میں کئی برس تک اپنی حکمرانی برقرار رکھی۔

خیال رہے کہ قومی ٹیم کو اب بھی بیک وقت سب سے زیادہ 4 بارعالمی ٹائٹلز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہالینڈ اور آسٹریلیا تین، تین، جرمنی دو اور بھارت نے ایک مرتبہ ورلڈ کپ جیتا ہے۔

پاکستان نے 1960روم اولمپکس، 1968 میکسیکو سٹی اولمپکس، 1984 لاس اینجلس میں گولڈ میڈلز پر قبضہ کیا۔

علاوہ ازیں تین بار چیمپئنز ٹرافی، تین بارایشین چیمپئنز ٹرافی، تین بار ایشیا کپ، تین بار سلطان اذلان شاہ کپ بھی جیتنے کا اعزازحاصل کیا لیکن بدقسمتی جس نے ملک نے دوسروں کو ہاکی کھیلنی سکھائی آج جو خود زوال کا شکار ہے۔

پاکستان ہاکی کے زوال کی سب سے بڑی وجہ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں اختیارات کیلئے رسہ کشی، حکومت کی عدم دلچسپی اورکھیل کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لینا ہے۔

ہر کسی کو مسند اقتدار پر بیٹھنے کی فکر ہے، قابل لوگوں کی جگہ سفارشی اور خوشامدی افراد کے ہاتھ میں فیڈریشن کی باگ ڈور تھما دی گئی۔

پاکستان کی ہاکی کو70 کی دہائی میں رائج طریقوں سے چلانے کی کوشش کی گئی۔

قومی کھیل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت وقت خود اس کھیل کے وقار کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کرے، کھلاڑیوں کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے سہولتیں فراہم کی جائیں۔

پاکستانی وزیراعظم عمران خان خود ایک بہترین کھلاڑی رہے۔ وہ کھلاڑیوں کے مسائل اور کھیل کے فروغ کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں گے۔

ہم پرامید ہیں کہ وزیراعظم عمران خان ہاکی کو بام عروج پر پہنچانے اور کھویا وقار حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

مزید خبریں :