سرکلر ریلوے — کراچی کے شہریوں کا برسوں پرانا خواب

منصوبے کی بحالی کی صورت میں روزانہ 7 لاکھ افراد فیضیاب تو ہوں گے ہی لیکن آپریشن میں 7 ہزار سے زائد شہریوں کے گھراوردیگر تنصیبات منہدم بھی کرنی پڑیں گی۔

کراچی شہر کو دوبارہ 'پرانا کراچی' بنانے کے لیے تجاوزات کے خلاف مہم اِن دنوں زور و شور سے جاری ہے اور یہی وہ سنہری موقع ہے کہ اس مہم کی آڑ میں کراچی سرکلر ریلوے کی زمین پر ہونے والا قبضہ بھی چھڑوا لیا جائے۔

ابتدائی طور پر حکام کی ملاقاتوں، اجلاسوں، احکامات اور قبضہ کی گئی زمین کے سروے تک معاملات سامنے آئے ہیں اور ابتدائی تخمینے کے مطابق اربوں روپے کے اس منصوبے کو چلانے کے لیے نہ تو ریلوے کے پاس اتنا سرمایہ ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کے پاس ایسا کوئی خصوصی پیکج کہ اس منصوبے کو دوبارہ شروع کیا جاسکے۔

کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز 1964 میں ہوا، لیکن شدید مالی بحران اور بداتنظامی کے باعث 1999 میں اس کے تمام آپریشنز بند کرنا پڑے۔ اگر یہ منصوبہ دوبارہ بحال ہوجاتا ہے تو اس صورت میں روزانہ 7 لاکھ افراد اس سے فیض یاب ہوں گے۔

محکمہ ریلوے کراچی کینٹ سے ایئرپورٹ تک ٹرین چلانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے، جو خوش آئند ہے۔ یہ منصوبہ سرکلر ریلوے کا ہی حصہ ہے جس کے لیے ڈرگ روڈ سے ایئرپورٹ تک مزید تین اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے، جس سے ایئرپورٹ پہنچنے والے مسافروں کو سہولت ہوگی اور شاہراہ فیصل پر ٹریفک کے دباؤ میں بھی کچھ کمی واقع ہوگی۔

اگر محکمہ ریلوے نے سرکلر ریلوے کی بحال کی ٹھان لی ہے تو اسے یہ بات ذہن نشین  کرلینی چاہیے کہ اس کی بحالی میں شدید عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ اس آپریشن میں 7 ہزار سے زائد شہریوں کے گھروں کو منہدم کرنا پڑیں گے، جن میں سے کچھ پختہ گھر ہیں، تو کہیں بلند و بالا عمارتیں اور کہیں قبضہ مافیا، جس کے تانے بانے ریلوے کی بااثر شخصیات تک جاتے ہیں۔

ریلوے کی زمین پر پلاٹنگ کے علاوہ کہیں چھوٹے موٹے چائے کے ڈھابے قائم ہیں تو کہیں پٹریاں دبا کر زمین کو پارکنگ اسٹینڈ بنادیا گیا ہے—۔ فوٹو/ راقم الحروف

کراچی سرکلر ریلوے 23 اسٹیشنز پر مشتمل ہے جو سٹی اسٹیشن سے شروع ہو کر کینٹ، نیول، چنیسر ہالٹ، شہید ملت، کارساز، ڈرگ روڈ، ہل ویو، گلستان جوہر سے ہوتے ہوئے، الہ دین پارک، نیپا، گیلانی، یاسین آباد، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، اورنگی، حبیب بینک، منگھو پیر، سائٹ، شاہ عبدالطیف، بلدیہ، لیاری، وزیر مینشن، ٹاور اور پھر سٹی اسٹیشن تک جاتا ہے۔

50 کلومیٹر کے اس سفر میں ریلوے کی تقریباً 67 ایکٹر زمین پر قبضہ کرلیا گیا ہے، کئی دہائی قبل کا انفرااسٹرکچر موجود ہے جسے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، ریلوے کی زمین پر پلاٹنگ کے علاوہ کہیں چھوٹے موٹے چائے کے ڈھابے قائم ہیں تو کہیں پٹریاں دبا کر زمین کو پارکنگ اسٹینڈ بنادیا گیا ہے۔

صنعتی علاقوں میں تو ریلوے کی وہ زمین جہاں کبھی پٹریوں پر ٹرینیں دوڑا کرتی تھیں، انہیں فیکٹریوں کے استعمال شدہ پانی کی نکاسی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ عرصہ دراز سے قدرت کے آسرے پر چھوڑی گئی ریلوے کی تنصیبات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں اور کہیں تو پٹریاں سڑکوں تلے دب کر اپنے آثار کھوچکی ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں برسوں پہلے قائم ہونے والے چھوٹے چھوٹے اسٹیشنز بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔

عرصہ دراز سے قدرت کے آسرے پر چھوڑی گئی ریلوے کی تنصیبات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور کہیں تو پٹریاں سڑکوں تلے دب کر اپنے آثار کھو چکی ہیں—۔ فوٹو/ راقم الحروف

سرکلر ریلوے منصوبے پر تجاوزات کو دیکھیں تو 10 مقامات ایسے ہیں جہاں شہریوں کے پختہ مکانات بن چکے ہیں یا اس زمین کو بازار، پارکنگ یا نکاسی آب کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

الہ دین، لیاقت آباد، یاسین آباد اور ناظم آباد میں بڑے پیمانے پر ریلوے کی اراضی پر تجاوزات قائم کی گئی ہیں، کہیں فرنیچر مارکیٹ موجود ہے تو کہیں پٹری سے متصل گھر اور کہیں تو پٹری کا وجود ہی مٹ چکا ہے۔

اسی طرح اورنگی، چنیسر ہالٹ، شہید ملت، لیاری، وزیر مینشن کے مقام پر ریلوے کی پٹریاں کہیں ہیں تو کہیں غائب ہیں، یہی نہیں تجاوزات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں دوبارہ ٹرینوں کو دوڑانا ناممکن ہے۔

لیاری، بلدیہ، شاہ عبدالطیف، سائٹ، منگھو پیر، حبیب بینک اور اورنگی اسٹیشن ٹریک بالکل صاف ہے جسے دوبارہ بحال کرنا دیگر مقامات کی نسبت آسان ہے، اس ٹریک پر صرف جھاڑیوں اور فیکڑیوں کے پانی کے علاوہ کچھ نہیں اور پرانے انفرااسٹرکچر کو یہاں بحال کیا جاسکتا ہے۔

منگھو پیر اسٹیشن زبوں حالی کا مںظر پیش کر رہا ہے—۔ فوٹو/ راقم الحروف

اسی ٹریک پر منگھو پیر اسٹیشن قائم ہے، جہاں موجود باقیات کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کبھی یہ اسٹیشن بھی عوام کی سفری ضروریات کو پورا کرتا تھا، اسٹیشن کے قریب آباد شہریوں میں سے بیشتر نے کبھی یہاں ٹرین چلتی نہیں دیکھی، بس ایک پرانا سا کمرہ، ایک بوگی، پٹریوں کے اوپر کی گزر گاہ اور پٹریوں کو تبدیل کرنے والے ہینڈل ہی منگھو پیر اسٹیشن کی باقیات ہیں اور اب یہ اسٹیشن اپنی زندگی سے بے پرواہ افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے، جہاں جگہ جگہ ان کی اشیائے ضروریہ اور پرانے کپڑے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

شہر کے اندر ہی اگر 50 کلومیٹر کے سفر پر سرکلر ریلوے بحال کردی جائے تو روزانہ 7 لاکھ مسافر اس سے مستفید ہوں گے، لیکن سوال وہیں ہے کہ برسوں سے ٹریک کے قریب آباد افراد کا کیا بنے گا اور متاثرین کے نقصانات کا مداوا کس انداز میں کیا جائے گا؟

اگر متاثرین کو غیرقانونی طور پر قابض کہہ کر ہٹا دیا جائے تو بھی سوال وہیں ہے کہ ان لوگوں کو ریلوے کی زمین پر آباد کس نے کیا؟ کس نے زمینوں کی دستاویزات بنا کر انہیں تعمیرات کی اجازت دی؟ اور کس طرح وہاں بجلی و گیس کے کنکشنز پہنچے؟ کیا بلڈنگ کنٹرول ڈپارٹمنٹ خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا اور کیا محکمہ ریلوے اور ریلوے پولیس ستو پی کر سوتی رہی؟

کیا ان سوالوں کے جوابات کسی کے پاس ہیں؟ ہمارا تو بس یہی ایک سوال ہے!