بلاگ
Time 17 دسمبر ، 2018

جانے کہاں گئے وہ دن ۔۔۔۔!

پہلے ہم عید کا چاند دیکھ کر اپنے بڑوں کو فون کرکے مبارک باد دیتے تھے اور اب عیادت کے لیے بھی 'آج کل' کرتے رہ جاتے ہیں—.فائل فوٹو

جانے کہاں گئے وہ دن جب خاندان اور رشتے سماجی رتبوں اور رہائشی علاقوں کو دیکھ کر استوار نہیں کیے جاتے تھے بلکہ خاندانوں کو بنانا اور رشتوں کو نبھانا سماجی اور مذہبی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ خاندانوں کے ایک دوسرے سے تعلق ہر خوشی اور غمی پر مزید مضبوط ہوجاتے تھے اور دور کے رشتےداوں کےساتھ کھڑے ہونا ہی باپ دادا سے چلی آرہی رسم سمجھی جاتی، لیکن پھر دنیا بدلی، زمانے کے انداز بدلے اور یہ معیار یہ بن گیا کہ اپنی کلاس بدلنے کے لیے پہلے محلہ اور رشتے دار بدلو اور پھر اس بھیڑ چال میں خود اپنی خُو ہی بھول جاؤ۔

یہ سب باتیں بھارتی شاعر اور مصنف جاوید اختر کی 'جشن فیض' میں کی گئی گفتگو سے یاد آئیں، جن کا کہنا تھا کہ 'متوسط طبقے نے پیسے کمانے کے چکر میں اپنی روایات کو چھوڑ دیا، جس کو خمیازہ تہذیب کو برداشت کرنا پڑا'۔

عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ تہذیب کی نمو اور آبیاری کا کام متوسط طبقے کی ذمہ داری ہے اور اسی کلاس کو خاندانی روایات نبھانا، رکھ رکھاؤ اور پرانی سوچ کو نئی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔

اپنے بڑوں سے بھی سنا ہے اور بچپن میں دیکھا بھی ہے کہ رشتے داروں میں کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی کسی کمتری کا شکار ہوتا تھا۔ پہلی بات تو کہ کوئی ایسی بات کرتا ہی نہیں تھا اور اگر کوئی ایسی 'اوچھی حرکت' کر بھی گزرتا تو اسے انتہائی 'برا اور نامعقول فعل' سمجھا جاتا تھا۔ خاندان کے کسی غریب گھرانے کو تنگی کا احساس نہیں دلایا جاتا تھا بلکہ بڑے خود سے ان رشتوں کا خیال رکھتے تھے، لیکن اب احساس تو دور کی بات ہم بغیر دل آزاری کیے، رہ ہی نہیں سکتے۔

ہماری نسل تک لوگوں کو تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے لیے تعلیمی اسناد دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بلکہ اخلاق، اندازِ گفتگو، نشست و برخاست اور تہذیبی رکھ رکھاؤ ہی خاندانی ہونے کی عام نشانیاں تھیں۔ آج کی طرح برانڈڈ لباس، جوتے اور پرس یعنی ظاہری اور اوپری لبادہ کسی کے خاندانی وقار میں اضافے کا سبب نہیں بنتا تھا بلکہ یہ 'نو دولتیا پن' کہلاتا تھا۔

 پہلے ہم عید کا چاند دیکھ کر اپنے بڑوں کو فون کرکے مبارک باد دیتے تھے اور اب عیادت کے لیے بھی 'آج کل' کرتے رہ جاتے ہیں

پھر محلوں اور گلیوں میں بھی رشتے، سگے شتوں جیسے ہی محترم اور دیرپا ہوا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب محلوں، گلیوں اور گھروں کے چبوتروں پر بچے کھیلوں میں مگن رہا کرتے تھے۔ جب ایک گھر میں اچار ڈلتا تو گلی کے ہی نہیں بلکہ محلے کے کئی گھروں میں بانٹا جاتا تھا اور آس پڑوس کے گھروں میں سالن بھیجنا ایک معمول کی بات تھی۔

70 اور 80 کی دہائی میں بھی آج کل کی طرح کے فیشن عام تھے، لیکن ہر با وقار شخصیت میں سادگی کا عنصر غالب رہتا اور سادگی صرف لباس میں ہی نہیں بلکہ رہن سہن کا بھی حصہ تھی۔ اُس وقت کے ڈرامے دیکھ لیں، اپنے گھروں اور محلوں کو یاد کریں اور سوچیں کہ کیا کیا حسین یادیں زمانے کے ہاتھوں مٹی ہوا چاہتی ہیں۔ ہم ڈیکوریٹڈ ڈرائنگ رومز، ویل فرنشڈ بیڈ رومز میں مزے کرتے ہیں کیونکہ اب آپ کو ڈر ہے کہ کہیں آپ کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں ۔ ہم سب اس 'ذہنی مرض' میں مبتلا ہیں کہ ہمیں بہترین موبائل، اچھی سی گاڑی ،برانڈڈ لباس ضرور چاہیے کیونکہ ان سب چیزوں کے بغیر آپ کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔

کتب پڑھنے کا رجحان تو 'ہوا' ہی ہوگیا، پہلے پہل محلوں میں لائبریریاں ہوا کرتی تھیں۔ گھروں میں بچوں اور بڑوں کو کتاب پڑھنے کی ترغیب دی جاتی تھی بلکہ بہترین تحفہ کتاب، گھڑی اور پین سمجھا جاتا تھا اور اب لوگ اچھی کتاب پر بات ہی نہیں کرتے بلکہ بڑے بڑے اسٹورز پر لگنے والی ملبوسات، جوتوں اور ہینڈ بیگز پر سیل کی کہانیاں عام ہیں، اسی لیے اب کتاب مہنگی اور لباس اور جوتے سستے سمجھے جاتے ہیں۔

ہمارامعاشرہ کتب پرور نہیں رہا اور ہم اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے، لیکن اب اس کے بھیانک نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں ٹھہراؤ، تحمل اور برداشت کا سلسلہ رک سا گیا ہے۔ اب کسی کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دینا اور دکھ سکھ بانٹ لینا خوبی نہیں سمجھی جاتی۔ 

روپے پیسے کی اہمیت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی، لیکن اس کو قبلہ و کعبہ بنا لینا غالباً بیس پچیس سال پہلے شروع ہوا۔ ہم سب روپے پیسے کمانے میں ایسے لگے کہ اپنے بچوں کو نہ اچھا بچپن دے پارہے ہیں اور نہ ہی اچھی شخصیت۔ اگر میں اپنی بات کروں تو یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میری شخصیت کی تعمیر میں صرف گھر والوں کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خاندان کے کتنے ہی بڑوں، گلی اور آس پڑوس کے کتنے ہی ماموں، خالہ، چچا اور دادا، نانی جیسے کرداروں نے اہم کردار ادا کیا۔ گلی کے ہر بڑے کو حق حاصل تھا کہ وہ بچوں اور بڑوں کو ہر غلط بات پر ٹوکیں اور ان کو اچھے برے کی تمیز کرانے میں ان کی مدد کریں۔

متوسط طبقے نے پیسے کمانے کے چکر میں اپنی روایات کو چھوڑ دیا، جس کو خمیازہ تہذیب کو برداشت کرنا پڑا

لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب ایسی ہوا چلی ہے کہ اچھے اور مضبوط رشتوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگا ہے۔ نفسا نفسی کے اس دور میں کون چچا اور کون تایا؟ کون خالہ اور کون سی پھوپھی؟ کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہ رہا۔ یقیناً بڑوں کے دم سے بھی گھروں میں رونق ہوتی ہے اور بڑوں کے دم سے ہی گھر میں دیگر رشتےداروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اب وہ کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں تو چھوٹوں کا کام ہے کہ وہ ان کی مزاج پرسی کو آئیں، لیکن اب یہ سب باتیں پیسا کمانے کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہیں۔

روز ایک نئی دوڑ تیز اور تیز بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے اور ہم کسی اور کام کے قابل نہیں رہتے۔ اس میں ہماری بھی غفلت ہے۔ پہلے ہم عید کا چاند دیکھ کر اپنے بڑوں کو فون کرکے مبارک باد دیتے تھے اور اب عیادت کے لیے بھی 'آج کل' کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایک دن چھٹی کا ہوتا ہے اور پورا دن ہفتے بھر کے کام نمٹانے میں ہی گزر جاتا ہے۔

لیکن اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ نے ایک اچھا بچپن گزارا۔ اچھے لوگوں سے بہت کچھ سیکھا تو اپنے بچوں کو بھی لوگوں کے قریب لائیں۔کارٹون کے کردار اور بچوں کی فلمیں انہیں وہ نہیں سکھا سکتیں جو ایک انسان دوست حقیقی کردار سکھا سکتا ہے۔ روپیہ پیسا ایک حقیقت ہے لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے۔ دراصل اچھی اقدار اور محنت سے زندگیاں بدلتی ہیں۔ آئیں ایک نئی سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں بدلیں، یقین کریں سادگی ہی حقیقی حسن ہے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔