بلاگ
Time 21 دسمبر ، 2018

بھارتی سیاست میں مسلم ووٹرز گیم چینجر بن سکتے ہیں؟

بی جے پی کی حکومت نے سیکولر اور جمہوری اقدار کے بجائے ہندوتوا کا ساتھ دیا اور یہی مذہبی جنون مودی کو لے ڈوبا، تازہ انتخابی نتائج تو کچھ یہی کہانی سنا رہے ہیں—۔فائل فوٹو

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی 'بی جے پی' نے سیکولر اور جمہوری اقدار کے بجائے ہندوتوا کا ساتھ دیا اور یہی مذہبی جنون مودی کو لے ڈوبا۔ دیگر پہلووؤں کے ساتھ سیاسی دباؤ اور خوف کا شکار مسلمانانِ ہند نے بھی مودی کے خلاف ووٹ ڈالے۔

مودی حکومت نے جس خوبی کے ساتھ سیکولر اور جمہوری گھوڑوں کو پیچھے کیا اور ہندوتوا کے پیادوں کو آگے بڑھاتے ہوئے برسوں سے قائم مسلم حوالوں اور تشخص کو مٹانے کا فریضہ سرانجام دیا، اس کا یہ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا۔

اس وقت دنیا کی تیسری بڑی مسلم آبادی بھارت میں مقیم ہے۔ 14.2 فیصد کے لحاظ سے مسلمانانِ ہند بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی حقیقت ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد پر ایک طرف تو بھارت 'او آئی سی' کا رکن بننا چاہتا ہے اور دوسری طرف مسلمان اقلیت کو دیوار سے لگانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

بی جے پی خود کو شمالی ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی طاقت سمجھتی تھی، لیکن تازہ انتخابی نتائج تو کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ بی جے پی، اپنے ہندو ووٹرز پر دھاک بٹھانے کے لیے مسلم مخالف فیصلے صادر کرتی رہی اور اس میں آگے آگے اترپردیش (یوپی) کے وزیراعلیٰ  ادیتا یوگی ناتھ ہیں۔ یوپی ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے، جہاں مسلم آبادی 19.3 فیصد ہے۔ بی جے پی سرکار کئی نسلوں سے آباد مسلم آبادی کے قدم اکھاڑنا چاہتی ہے اور صوبے کے وزیراعلیٰ بھی اپنی سیاست چمکانے کے لیے مسلسل مسلم کش بیانات داغ رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ بنتے ہی ان کی آنکھوں میں ہندستان کی تاریخ سے جڑے مسلم حکمران چھبنے لگے۔ وہ کبھی مغلوں کو ہندوستانی نہیں مانتے اور کبھی تاج محل جیسے تاریخی ورثے کو غلام دور کی علامت قرار دے کر بھارتی تاریخی عمارتوں کی فہرست سے نکال دیتے ہیں۔ کبھی دارالعلوم دیوبند کو 'دہشت گردی کا مرکز' کہا جاتا ہے تو کبھی بلند شہر میں ہجوم کے تشدد سے ہلاک ہونے والے اخلاق احمد کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس آفیسر سبودھ کمار سنگھ کے  قتل کو ایک 'حادثہ' قرار دے کر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔

ان اقدامات سے بھی ہندوتوا کی حامی راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس آر)، بی جے پی اور ان کی ہمنوا این ڈی اے کو چین نہ پڑا تو الہٰ باد کو 'پریا گرج' ، فیض آباد کو 'ایودھیہ' اور مغلوں کی علامت سمجھے جانے والے 138 سالہ مغل سرائے جنکشن کو 'پنڈت دین دیال اپادھیائے' کا نام دے دیا۔ کیا ان تبدیلیوں کا مقصد شہروں اور قصبوں کے ناموں کو بدل کر ان کو 'گھر واپسی' کا حصہ بنانا تھا؟ مودی سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ ان اقدامات سے صرف ہندوستان کا 71 سالہ سیکولر چہرہ ہی گہن زدہ ہوگا۔

گجرات کا سب سے بڑا اور قدیم شہر احمد آباد ہے۔ یہ سن ساٹھ تک گجرات کا دارالخلافہ رہا اور جہاں ہونے والے فسادات آج تک خبروں میں ہیں۔ اب انتہا پسند ہندو چاہتے ہیں کہ قدیم اور صدیوں سے آباد احمد آباد کا نام بدل کر 'کرنا وتی' رکھ دیا جائے۔ صدیوں بعد یہ نام بدلنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کو بسانے والے احمد شاہ ابدالی تھے۔ ان خبروں پر بلا آخر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر عرفان حبیب کو لب کھولنے ہی پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ  'بی جے پی مسلمان حوالوں کو مٹانا چاہتی ہی ہے، تو پہلے اپنے پارٹی کے صدر 'امیت شاہ' کے نام سے 'شاہ' نکالیں کیونکہ لفظ 'شاہ' کا حوالہ سنسکرت نہیں بلکہ فارسی زبان ہے'۔

یہی نہیں مزید گُل کھلانے کے لیے اترپردیش میں بی جے پی کے لوک سبھا کے رکن سنگیت سوم چاہتے ہیں کہ مظفر نگر کو 'لکشمی نگر' سے بدل دیا جائے۔ جگن پرساد گرگ کا خیال ہے کہ آگرہ، 'آگیا' یا 'اگروال'  کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ ایک مطالبہ علی گڑھ کو 'ہری گڑ' سے بدلنے کا بھی آیا ہے ۔

بی جے پی سرکار کے یہ مسلم کش فیصلے اس بات کے عکاس ہیں کہ وہ بھارتی مسلمانوں کو خوفزدہ ہی نہیں کرنا چاہتی بلکہ تاریخ سے جڑے مسلم ناموں، مقامات اور تہذیب کو بھی مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔

بھارتی سیاستدانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کوئی ایک دو برس کی بات نہیں بلکہ کئی صدیوں کا قصہ ہے۔ مسلمانان ہند کے گہرے اثرات پورے ہندوستانی معاشرے پر قائم تھے اور رہیں گے۔ 

سچر رپورٹ کو پیش کیے گئے 13 سال گزر چکے ہیں، لیکن مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکی بلکہ مودی حکومت تو اس رپورٹ کو بھی کانگریس کا مسلم ووٹ حاصل کرنے کا حربہ سمجھتے ہوئے اس کی مخالفت کرتی رہی۔ اس رپورٹ کے مطابق فوری کام کرنے کے بجائے اس کو بھی مسلمانوں کا جرم ہی بنا دیا گیا۔

کوئی مانے یا نہ مانے، مسلمانانِ  ہند کی ایک مسّلم سیاسی حقیقت ہے۔ بی جے بی پی سرکار نے ان کو نظر انداز کرکے اپنا ووٹ بینک ضائع کیا کیونکہ راجیہ سبھا کی 218 سیٹوں میں سے 145 حلقوں میں مسلم ووٹرز 20 فیصد ہیں، جو آئندہ بھی انتخابی نتائج میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ بھارتی نیوز چینل 'اے بی پی' کے چند ماہ پہلے کیے گئے پول سروے کے مطابق 'بھارت کی 38 ریاستوں میں مسلمان ووٹر اہم کردار ادا کریں گے۔ اتر پردیش کے کم از کم 80 سے زائد حلقوں میں مسلمان ووٹرز، بی جے پی کے لیے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار، کرناٹک، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں بھی مسلم ووٹرز اپنا آپ منوائیں گے'۔

2014 کے انتخابی نتائج کے مطابق کانگریس کو مسلمانوں کے 38 فیصد ووٹ ملے تھے۔ دوسرے نمبر پر سماج وادی پارٹی رہی، جسے 11.2 فیصد ووٹ پڑے اور جنتا دل پارٹی کے حصے میں 6.3 فیصد مسلمان ووٹر آئے  جبکہ مسلم ووٹرز کا سب سےکم اعتماد بی جے پی کے حصے میں آیا یعنی صرف 8 فیصد ۔

حالیہ انتخابات کے نتائج کی ذیلی تفصیلات سامنے آنے میں ابھی وقت ہے، لیکن جس طرح بی جے پی نے سیاسی فضا کو مسلمان مخالف بنایا، وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک طرف مودی سرکار نے بحیثیت وزیراعظم بھارتی عوام کو ساتھ لے کر چلنے کی بات، وہیں دوسری طرف اپنے حمامی اور اتحادیوں کو مذہبی بنیاد پرستی مہم سے بھی نہیں روک سکے۔ چاہے وہ نفرت انگیز بیانات ہوں یا گاؤ رکشا،گھر واپسی ہو یا 'لَو جہاد' جیسی آوازیں، بلکہ یہ آوازیں زیادہ توانائی کے ساتھ ان کے دور حکومت میں با آواز بلند گونجتی رہیں۔

گزشتہ 30 سالوں سے بابری مسجد اور رام مندر کے تنازع پر سیاست کی جارہی ہے۔ بھارتی سیاست دانوں کو سمجھنا ہوگا کہ سیاست کا یہ انداز سیکولر بھارت اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ساتھ ہی مودی جی کو بھی تازہ ترین زور کا جھٹکا لگا ہے۔ ان نتائج سے وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ عوام مسائل کا حل چاہتے ہیں اور بی جے پی عوامی مسائل اور وعدوں کو پورا نہیں کرسکی ہے۔ ایک طرف مودی دنیا کے چوراسی ممالک کا دورہ کرتے ہیں اور ان دوروں اور اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے 65 بلین روپے خرچ کر ڈالتے ہیں۔ یہی نہیں مودی اور بی جے پی نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کو گیروا رنگ پہنا کر ان کا 182 میٹر لمبا مجسمہ بھی کھڑا کر دیا، جس پر دو ہزار نوسو اٹھانوے کروڑ روپے لاگت آئی۔ یہ مجسمہ امریکا کے 'مجسمہ آزادی' سے دگنا اور چین کے بدھا کے مجسمے سے تیس میٹر زیادہ بڑا ہے اور دوسری طرف ہندوستانی کسان خودکشیاں اور مظاہرے کرتے رہ گئے، نہ ان کے قرضے معاف ہوسکے اور نہ ہی ان کو ان کی فصلوں کے درست دام مل سکے۔

اس وقت بھارت میں سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے۔ ان ریاستی انتخابی نتائج کے بعد سب کی نظریں راجیہ سبھا کے انتخابات پر جمی ہوئی ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی اور گانگریس کے درمیان بہت سخت مقابلہ رہا۔ بی جے پی کو عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن ان کی مخالفت بھی کم نہیں۔ اگر اگلے عام انتخابات میں کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کانگریس کو بنیادی عوامی مسائل کا فوری حل تلاش کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ایسے اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے جس سے ہندوستانی مسلمان خوف اور انتشار کی سیاست سے نکل سکیں جبکہ خود مسلمانانِ ہند کو بھی اپنا سیاسی کردار بڑھانا ہوگا۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔