27 دسمبر ، 2018
لندن: قومی احتساب بیورو (نیب) لندن کی بین الاقوامی مصالحتی عدالت میں املاک ریکور کرنے والی فرم 'براڈ شیٹ' کے خلاف مقدمہ ہار گیا، جس کے نتیجے میں اب نیب کو 60 ملین ڈالر (سوا 8 ارب روپے سے زائد) رقم ادا کرنا ہوگی۔
دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں برطانیہ اور امریکا میں کم وبیش 200 پاکستانیوں کے اثاثوں کا پتہ لگانے کے لیے آئزل آف مین رجسٹرڈ براڈشیٹ ایل ایل سی نامی فرم کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اور اس سلسلے میں آصف علی زرداری، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور لیفٹیننٹ جنرل اکبر کو بطور خاص ہدف بنایا گیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت مقررہ اہداف سے وصول شدہ رقم میں سے 20 فیصد کمپنی کو ادا کی جانی تھی، تاہم کسی بھی الزام کا ثبوت نہیں ملا اور ایک عشرے کے دوران برطانیہ سے ایک روپیہ بھی واپس نہیں لایا جاسکا۔
ذرائع کے مطابق ان اخراجات سے ہٹ کر براڈ شیٹ کمپنی فیصلہ اپنے حق میں آنے کے بعد نیب سے قانونی چارہ جوئی اور کیس کے اخراجات کی مد میں مزید ایک کروڑ امریکی ڈالر کا دعویٰ بھی کرے گی جبکہ سود کی مد میں 7 فیصد بھی وصول کرنا چاہے گی۔
دوسری جانب اگرچہ براڈ شیٹ سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی، لیکن براڈ شیٹ کمپنی العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا اور جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد مزید 60 لاکھ امریکی ڈالر کا دعویٰ بھی کرے گی کیونکہ فرم نے سب سے پہلے کیس پر کام شروع کرکے نیب کو شریف خاندان کے خلاف دستاویزات فراہم کی تھیں۔
دی نیوز نے جو کاغذات دیکھے ہیں، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیب کو مختلف اخراجات کی مد میں 60 ملین ڈالر ادا کرنا پڑسکتے ہیں اور نیب کی جانب سے اس میں کسی طرح کی ہیر پھیر اور چالاکی دکھانے کی کوشش کے نتیجے میں نیب کو اضافی جرمانے، اخراجات اور سود کی شکل میں زیادہ نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔
خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ براڈشیٹ نے شریف خاندان کے خلاف کام کا آغاز 2003 میں معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد فوری طور پر پہلے اہداف کے تحت کر دیا تھا۔
براڈ شیٹ کے الزامات
براڈ شیٹ نے نیب کے خلاف الزام عائد کیا تھا کہ نیب نے 2003 میں معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔ اس کمپنی کی جانب سے نیب کے خلاف تقریباً 600 ملین ڈالر کا دعویٰ کیا گیا تھا جبکہ نیب کا کہنا تھا کہ یہ رقم 340 ملین ڈالر ہے۔
واضح رہے کہ کولوراڈو کے ایک بزنس مین جیری جیمز نے آف شور کمپنی کے طور پر براڈ شیٹ ایل ایل سی قائم کی تھی، بعدازاں انہوں نے 2005 میں آئزل آف مین میں لکویڈیشن پروسیڈنگز کے لیے کیس فائل کیا، پہلے اسے تحلیل کیا اور پھر اسے ریوائز کیا، بعد ازاں انہوں نے اسی نام کے ساتھ کولوراڈو کمپنی قائم کی اور 2008 میں نیب سے معاہدے پر مذاکرات کیے تاکہ 2.25 ملین ڈالر کا تنازع طے کیا جاسکے، جس کے بعد نیب نے یہ رقم ادا کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 2011 میں کمپنی کے مالک جیری جیمز کا پیرس ہوٹل کی پانچویں منزل کی بالکونی سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔
تاہم براڈ شیٹ ایل ایل سی لندن آفس نے جمیز کی نیب کے ساتھ 2.25 ملین ڈالر کی سیٹلمنٹ کے خلاف کیس دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ دونوں فریقین نے دھوکہ دیا۔
براڈ شیٹ نے موقف اختیار کیا کہ نیب نے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی اور نوٹیفائی کیے بغیر سیٹلمنٹ میں داخل ہوئے، جس کی وجہ سے اسے طے شدہ شیئر سے محروم کر دیا گیا۔
نیب اور براڈ شیٹ ایل ایل سی کے خلاف مقدمے بازی کئی برسوں سے جاری تھی، لیکن گزشتہ سال جولائی میں آخری سماعت چار روز جاری رہی، جہاں سابق انگلش کورٹ آف اپیل جج سر انتھونی ایونز کیو سی نے چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آف آربیٹریشن رولز کے تحت لندن میں کیس کی سول آربیٹریٹر کے طور پر سماعت کی۔
اس سے قبل اگست 2016 میں انٹرنیشنل ٹربیونل جج سر انتھونی ایونز نے براڈ شیٹ کے دلائل کو برقرار رکھا کہ 2008 کی سیٹلمنٹ اس کیلئے بائنڈنگ نہیں تھی اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت جیمز کے پاس کمپنی کی جانب سے اقدام کرنے کی کوئی اتھارٹی نہیں تھی، یہ بھی قرار دیا گیا کہ پاکستان نقصان کی ادائیگی کرنے کا پابند ہے کیونکہ نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ غلط طور پر ایسٹ ریکوری ایگریمنٹ کو ختم کیا اور کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کی۔
یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ براڈ شیٹ ہرجانے کی مستحق ہے لیکن اس کے مکمل حجم کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی دفاعی قانونی فرم ایلن اینڈ ایل ایل پی کو اب تک 11 ملین ڈالر اور 2.5 ملین ڈالرز کی ادائیگی کی جاچکی ہے جبکہ نیب کی جانب سے فرم کی خدمات جاری رکھنے کی صورت میں یہ رقم مزید بڑھ سکتی ہے۔
لندن میں ایک ماہ بعد ایک اور سماعت ہونی ہے، جس میں ادائیگی کے شیڈول کا فیصلہ کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ میں بھی معاملے کی گونج
یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اُس وقت پہنچا جب براڈ شیٹ ایل ایل سی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن (جے آئی ٹی) کے والیوم 10 کی کاپی جاری کی جائے، تاہم پاکستان کے اٹارنی جنرل (اے جی پی) انور منصور خان اور پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے جے آئی ٹی رپورٹ کے والیوم ٹین کو حاصل کرنے کے حوالے سے براڈ شیٹ کی دلیل کی مخالفت کی۔
دوسری جانب براڈ شیٹ ایل ایل سی کے وکیل لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ اگر جے آئی ٹی رپورٹ کا والیوم 10 فراہم نہ کیا گیا تو اس کا آربیٹریشن پر منفی اثر پڑے گا، جو سر انتھونی ایونز سول آربیٹریٹر آف انٹرنیشل آربیٹریشن برطانیہ کے سامنے زیر التوا ہے۔
جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 10جولائی 2017 کو تین رکنی بنچ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران یہ حکم جاری کیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا والیوم ٹین بدستور کانفیڈینشل رہے گا۔