04 جنوری ، 2019
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق صدور آصف زرداری اور پرویز مشرف سمیت سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف این آر او کیس نمٹا دیا۔
این آر او (قومی مفاہمتی آرڈیننس) کیس کے درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کی جانب سے دائر درخواست میں پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ این آر او کے ذریعے کرپشن کیسز ختم کیے گئے، کرپشن کے کیسز ختم ہونے سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔
درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ لوٹے گئے پیسوں کو وصول کیا جائے۔
عدالت نے گزشتہ سال اپریل میں مقدمے پر سماعت کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف اور آصف زرداری کونوٹس جاری کیے تھے جب کہ دونوں شخصیات کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں۔
زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیل آچکی: چیف جسٹس
4 جنوری جمعہ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے این آر او کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آصف زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیل آچکی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کدھر ہیں؟ اس پر معزز جج کو بتایا گیا کہ فیروز گیلانی علیل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کیے تھے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
عدالت نے سابق صدور پرویز مشرف، آصف زرداری اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف این آر او کیس ختم کرتے ہوئے فیروز شاہ گیلانی کی درخواست نمٹا دی۔
این آر او کیا ہے؟
سابق صدر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 کو قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا جسے این آر او کہا جاتا ہے، 7 دفعات پر مشتمل اس آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا بتایا گیا تھا جب کہ اس قانون کے تحت 8 ہزار سے زائد مقدمات بھی ختم کیے گئے۔
این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں نامی گرامی سیاستدان شامل ہیں جب کہ اسی قانون کے تحت سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی بھی ممکن ہوسکی تھی۔
این آر او کو اس کے اجرا کے تقریباً دو سال بعد 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے کالعدم قرار دیا اور اس قانون کے تحت ختم کیے گئے مقدمات بحال کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔