جعلی اکاؤنٹس: حیران کن اور دلچسپ کیس

— 

جعلی اکاؤنٹس پر کھربوں کی ترسیلات کرپشن اور وائٹ کالرکرائم کی تاریخ کا حیران کن اور دلچسپ کیس ہے۔ ابتدائی رپورٹ پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں بھی قومی خزانے سے کمیشن، ٹھیکوں اور قرضوں کی شکل میں اربوں روپے حاصل کرکے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے کا انتہائی منفرد کیس ہے۔

رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنا وسیع جال ہے جس کا نیٹ ہر شعبہ زندگی کو چھو رہا ہے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کیس میں خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس میں ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور آئی ایس آئی کے ماہرین شامل ہیں۔

اس تحقیق میں 28مختلف زاویوں سے رپورٹس تیار کی گئی ہیں ۔اس دوران 885سمن جاری کئے گئے، جس میں 767 افراد اور گواہان شامل ہیں ۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے924 کمپنیز اور افراد کے گیارہ ہزار پانچ سو بینک اکاونٹس پر تفتیش کی۔ جس میں 59مشکوک اکاؤنٹس اور 24500 کیش ترسیلات کرنے والے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔ان اکاؤنٹس میں 32 جعلی اکاؤنٹس کی نشاندہی ہوئی جہاں سے 42ارب 37کروڑ روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی ۔

اس کیس میں پاکستانی تحقیقاتی اداروں پر مشتمل مشترکہ ٹیم کی سخت محنت ابتدائی رپورٹ میں نظر آتی ہےلیکن اس تحقیق سے ایک بات واضح ہورہی ہے کہ سرکاری ادارے اور سرکاری افسران مافیا کا حصہ بن جائیں تو نظام کو دیمک لگ جاتی ہے ۔ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن میں وائٹ کالر کرائم کا اتنا بڑا جال پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی کسی نے دریافت نہیں کیا ۔ایک ایسا کیس جس میں پڑھے لکھے قابل ترین لوگ ، بینکرز، مقابلے کا امتحان پاس کرکے آنے والے سرکاری افسران و ملازمین سمیت انگوٹھا چھاپ ، واجبی کاروباری افراد بھی شامل ہیں ۔

یہ ایک ایسی دلچسپ فلم لگتی ہے جس میں سرکاری افسران و ملازمین، سیاستدان، بینک و کارپوریٹ سیکٹر کے سربراہان، صنعتکار، ٹھیکیدار، جرائم پیشہ، نجی اداروں کے ملازمین اور عام آدمی کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔

جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ پڑھ کر یہ بات رد ہی نہیں کی جاسکتی کہ اس وائٹ کالر کرائم کے پیچھے کتنا شاطر ترین دماغ کام کرتا رہا ہے ۔ جہاں ایک جال پر دوسرا جال اور اس پر کئی جال ڈال کر اتنا الجھا دیا جائے کہ کسی ایک جال کو بھی الگ کرنے کے لئے انتہائی تحقیق کی ضرورت ہو اور اس تک پہنچنے کے لئے کئی تہیں ہٹانی پڑیں تو جال کی ڈور کھینچنے والے تک پہنچا جاسکے ۔

لیکن یہاں یہ بات بھی واضح محسوس ہوتی ہے کہ اگر نظام آزادانہ کام کررہا ہو تو قانون اس کے نفاذ اور عمل درآمد سے بڑے سے بڑے جرائم پر گرفت ڈال کر اسے روکا جاسکتا ہے ۔اس رپورٹ کا مزید جائزہ جاری ہے جس کے بارے میں ہم اپنے قارئین کو آئندہ تحریروں میں آگاہ کریں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔