17 جنوری ، 2019
برطانوی وزیراعظم ٹریزامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی ہے، مگر حکمراں کنزریٹو پارٹی کے مستقبل پر منڈلاتے خطرات ختم نہیں ہوئے۔
لیبر پارٹی کی جانب سے بدھ کو دارالعوام میں پیش عدم اعتماد کی تحریک 306 کے مقابلے میں 325 ووٹوں سے ناکام ہوگئی۔ ٹریزامے کو بچانے میں ڈی یوپی اور کنزریٹو پارٹی کے اُن باغی اراکین نے بھی ساتھ دیا، جنہوں نے ایک روز قبل اپنی ہی پارٹی کی وزیراعظم کی جانب سے پیش کیے گئے بریگزٹ بل کو مسترد کردیا تھا۔
بریگزٹ بل کی مخالفت میں حکمراں جماعت کے 118 باغی اراکین اٹھ کھڑے ہوئے تھے، جن کے نزدیک یورپی یونین سے نکلنےکے بارے میں حکومتی تجاویز ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔
برطانوی حکومت کو ایوان میں 13 اراکین کی اکثریت حاصل ہے اور ٹریزامے کے لیے وقتی طور پر اچھی خبر یہ ہے کہ غیر متوقع طور پر تحریک عدم اعتماد 19 ووٹوں سے مسترد کی گئی۔ 1993کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ اپوزیشن لیبر پارٹی کے قائد جریمی کاربن، ٹریزامے کے پیروں سے زمین کھینچنے کی کوشش میں تو ناکام ہوگئے اور اب یہ بھی واضح ہے کہ برطانوی وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گی تاہم ٹریزامے کا سیاسی مستقبل اب بھی دھندلا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم نے بریگزٹ پر ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے جریمی کاربن کو مذاکرات کی دعوت تو دی ہے، لیکن کاربن نے ان مذاکرات کے لیے 'نو ڈیل' خارج از امکان قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے، یعنی 29 مارچ کو جب برطانیہ یورپی یونین سے نکلے گا تو یہ عمل بغیر ڈیل کے نہیں ہونا چاہیے، جبکہ حکومتی رکن پارلیمنٹ رحمان چشتی کا کہنا ہے کہ کسی ڈیل پر نہ پہنچے تو 'نو ڈیل' پر ہی برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا۔
یہ واضح تو نہیں کہ حکومت کی زنبیل میں مزید کیا کچھ ہے، مگر برطانوی وزیراعظم بریگزٹ پر متبادل منصوبہ پیر (21 جنوری) کو پیش کریں گی، لیکن آثار ایسے ہیں کہ اپوزیشن اس پر متفق نہیں ہوگی۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی کی رہنما اور فرسٹ منسٹر تو پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ٹریزامے کی حکومت بریگزٹ معاملے سے نمٹنے میں ناکام ہوگئی ہے، ساتھ ہی انہوں نے بریگزٹ کے معاملے پر ایک اور ریفرنڈم کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ دوسری جانب لبرل ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے لارڈ قربان بھی یہی کہتے ہیں کہ بہتر ہوگا کہ بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے۔
اپوزیشن اگر حکومت کی جانب سے پیش کردہ متبادل منصوبہ مان بھی لے تو بھی یورپی یونین بریگزٹ کے معاملے پر کسی بھی صورت مزید مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ یورپی کمیشن نے رعایت دی ہےکہ اگر برطانیہ نے درخواست کی تو یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے یعنی بریگزٹ کی تاریخ 29 مارچ سے آگے بڑھائی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے لندن کو ٹھوس وجوہات بتانا ہوں گی۔
برطانوی وزیراعظم بریگزٹ پر متبادل منصوبہ 21 جنوری کو پیش کریں گی، لیکن آثار ایسے ہیں کہ اپوزیشن اس پر متفق نہیں ہوگی
برٹش پاکستانی یورپی رکن پارلیمنٹ سجاد کریم کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں انہیں مقررہ وقت پر بریگزٹ ہوتا نظر نہیں آرہا جبکہ تجزیہ کاروں کو بریگزٹ ہی ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، تاہم اس کے لیے قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ برطانوی وزیراعظم بریگزٹ کے حق میں قانون سازی کرچکی ہیں۔
بریگزٹ کے لیے جتن کرنے والی کنزریٹو پارٹی کے کئی اراکین میں اب بے دلی کی وجہ بھی واضح ہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر برطانیہ بریگزٹ کرتا ہے تو یورپی یونین سے تعلق کا حامی اسکاٹ لینڈ علیحدگی کی طرف جانے کے لیے ریفرنڈم کرائے گا جبکہ شمالی آئرلینڈ بھی یورپی یونین کے ساتھ رہنےکو ترجیح دے گا۔ اس صورت میں برطانیہ ٹوٹ کر اگر انگلینڈ اور ویلز پر مشتمل رہ گیا تو بےحیثیت ہوجائے گا۔جس کے باعث برطانیہ کو نہ صرف جی سیون ممالک سے نکلنا پڑےگا بلکہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی۔
اس صورت حال سے بچنے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ بریگزٹ کے معاملے پر دوسرا ریفرنڈم کرالیا جائے کیونکہ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے برطانوی عوام کو اب اس بات پر تیار کرلیا ہےکہ بریگزٹ برطانیہ کے مفاد میں نہیں اور پہلا ریفرنڈم جلد بازی، ناسمجھی، سیاسی بلوغت میں کمی اور عالمی سازشوں سے بےخبری کا نتیجہ تھا۔
برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کی تحریک یوکے انڈیپینڈنس پارٹی کے بانیوں میں سے ایک قائد نائجل فراج نے رکھی تھی، جو 20 برس سے اسی رستے پر چلتے رہے ہیں اور ان کا نعرہ رہا ہےکہ مجھے 'اپناوطن واپس چاہیے'۔ یوکپ نےانہی کی بدولت 2013 میں انگلینڈ کی 140 سےزائد کاؤنسل کی نشستیں جیتی تھیں اور فراج ہی کے سبب یوکپ 2015کے عام انتخابات میں ووٹ حاصل کرنےکے لحاظ سے برطانیہ کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔
یہ فراج ہی تھے جن کے سحر میں مبتلا ہو کر ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد نے یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ان کے مقبول مگر متنازع نعروں میں امیگرنٹس کی تعداد میں غیر معمولی کٹوتی بھی تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ جو شخص یورپی یونین میں رہنےکا علمبردار تھا، وہ برطانیہ کا رکن پارلیمنٹ بننے میں سات بار ناکام رہا، مگر برٹش رکن یورپی پارلیمنٹ بن گیا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ٹوری پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے ہوا کا رخ یوکپ کی طرف چلتا دیکھنا شروع کیا اور جیسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں موسمی پرندوں نے پی ٹی آئی کی طرف پروازیں شروع کی تھیں،کنزرویٹو اراکین نے یوکپ کی رکنیت اختیار کرنا شروع کردی۔حد یہ ہے کہ برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈگلس کارسویل نے ٹوری پارٹی چھوڑ کر یوکپ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور کامیاب بھی رہے۔
اگر دوسرے ریفرنڈم کا نتیجہ برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کےحق میں نکلا تو کنزرویٹو پارٹی کا سورج ایک عرصے کے لیے غروب ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا
اپنے اراکین کی لمبی قطار دوسری جانب لگنے سے پہلے ہی کنزرویٹو پارٹی نے یورپی یونین چھوڑنے کے معاملے پر جون 2016 میں ریفرنڈم کرا دیا تھا۔71 فیصد سے زائد لوگوں نے ریفرنڈم میں حصہ لے لیا اور 51 فیصد سے زائدلوگ یونین چھوڑنےکےحق میں ووٹ بھی دےبیٹھے، مگر اس ووٹ نے ملک کو سیاسی طور پر تقسیم بھی کردیا۔ انگلینڈ اور ویلز کے عوام کی اکثریت نے ووٹ یورپی یونین سے علیحدگی کےحق میں دیا جبکہ اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے باسیوں کی اکثریت 28 رکنی یورپی یونین کے ساتھ رہنےکےحق میں کھڑی ہوئی، یعنی ریفرنڈم ایسی غلطی بن گیا، جس کی سزا ٹوری پارٹی آج بھگت رہی ہے۔
اس بات کے ٹھوس ثبوت تو نہیں کہ یوکپ یا اس کے یورپی یونین مخالف رہنما کو کس کس نےفنڈنگ کی تاہم بعض حلقوں کا خیال ہےکہ برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ کرنےکی سازش میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کا کردار ہے جو امریکا کے صدارتی انتخابات میں بھی مبینہ طور پر ہیلری کلنٹن کے خلاف ٹرمپ کے حمایتی تھے۔
امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہےکہ برطانیہ کے سیاسی کرداروں کو روسی سرمایہ فراہم کیا گیا۔ سوال اس بات پر بھی اٹھایا جا رہا ہےکہ آخر برطانیہ کے دیگر سیاستدانوں کے برخلاف نائجل فراج نے روس پر یورپی یونین کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کیوں کی تھی؟ یہی نہیں برطانیہ کا الیکٹورل کمیشن بھی اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ 'برطانیہ چھوڑ دو' تحریک کو اچانک اتنی رقم ملی کیسے؟
برطانیہ یورپی یونین میں رہا تو بھی اس کی حیثیت ایک ایسی تنک مزاج بیوی کی سی ہوگی جو ناراض ہو کر گھر چھوڑنے کیلئے دہلیزتک پہنچ گئی تھی، مگر گلی میں گہری کھائی دیکھ کر تمسخر اڑاتے شوہر کے پاس لوٹ آئی ہو۔
فنڈنگ کسی نے بھی کی ہو، بریگزٹ ہوا۔ نسلی اقلیتوں کے لیے بری خبر یہ ہوگی کہ برطانیہ سے علیحدہ ہونے والے علاقوں میں قوم پرستی کا رجحان شدت اختیار کرے گا اور نسلی اقلیتوں پر زمین تنگ ہوجائے گی، یہی وجہ ہے کہ کئی ایسے سیاستدان جو پہلے بریگزٹ کے چیمپئن تھے، اب دوسرے ریفرنڈم کی وکالت کر رہے ہیں۔
یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے ریفرنڈم کا نتیجہ برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کےحق میں نکلا تو کنزرویٹو پارٹی کا سورج ایک عرصے کے لیے غروب ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ لیبر پارٹی برطانوی حکومت کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کرے گی اور اگر فوری الیکشن نہ بھی ہوا، تب بھی 2 برس بعد اگلا الیکشن لیبر پارٹی ہی کے جیتنے کا امکان ہوگا۔
لیبر پارٹی کے لیے اس وقت مشکل یہ ہے کہ اس کے لیڈر جریمی کاربن اپنے بائیں بازو کے نظریات اور جنگوں کے خلاف لاکھوں افراد کی ریلیوں کی قیادت کرنے کے سبب دنیا کی کئی اہم طاقتوں کی نظروں میں کھٹکتے ہیں۔کیا اگلے الیکشن سے پہلے انہیں تبدیل کیا جائے گا یانہیں؟ یہ علیحدہ بحث ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ بریگزٹ پر پہلا ریفرنڈم کرانے کی طرح دوسرا ریفرنڈم کرانےکی سزا بھی کنزرویٹو ہی کو برداشت کرنا پڑےگی اور برطانیہ یورپی یونین میں رہا تو بھی اس کی حیثیت ایک ایسی تنک مزاج بیوی کی سی ہوگی جو ناراض ہو کر گھر چھوڑنے کے لیے دہلیزتک پہنچ گئی تھی، مگر گلی میں گہری کھائی دیکھ کر تمسخر اڑاتے شوہر کے پاس لوٹ آئی ہو۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔