20 جنوری ، 2019
لاہور:ساہیوال مبینہ مقابلے کی ویڈیو منظر پر آنے کے بعد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پنجاب کی جانب سے نئی وضاحت سامنے آگئی ہے۔
گزشتہ روز جی ٹی روڈ پر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی نے مبینہ مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا جس کی نئی ویڈیو منظر عام پر آگئی ہے۔
ویڈیو میں دیکھا گیا کہ سی ٹی ڈی اہل کاروں نے موبائل وین سے ٹکر مار کر گاڑی کو روکا اور بچوں کو نکالنے کے بعد انتہائی قریب سے اندھا دھند فائرنگ کردی جب کہ کار میں سوار ذیشان اور مہر خلیل نامی افراد کی جانب سے جوابی فائرنگ نہیں کی گئی۔
سی ٹی ڈی اہل کار بچوں کو اپنے ہمراہ لے گئے اور اس سارے منظر کی ویڈیو پیچھے کھڑی گاڑی میں بیٹھا شخص اپنے موبائل سے بناتا رہا۔
سی ٹی ڈی پنجاب کی دوسری نئی وضاحت:
واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سی ٹی ڈی پنجاب کی جانب سے نئی وضاحت سامنے آگئی جس میں بتایا گیا کہ ہم نے دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایا ہے۔
اس سے قبل سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ کار میں اغوا کار سوار تھے اور پولیس مقابلے کے بعد 3 بچوں کو بازیاب کرالیا گیا ہے۔
سی ٹی ڈی پنجاب کے ترجمان کا اپنی نئی وضاحت میں کہنا ہے کہ گزشتہ روز سیف سٹی کیمرے سے ایک مشتبہ کار کی نشاندہی ہوئی، جس میں اگلی سیٹ پر 2 مرد موجود تھے اور وہ لاہور سے ساہیوال جارہے تھے۔
سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ اہلکاروں نے کار کو رکنے کا اشارہ کیا اور کار نہیں رکی جب کہ ڈرائیور ذیشان سے اہلکاروں پر فائرنگ کی جب کہ کار کے پیچھے آنے والے موٹر سائیکل پر سوار 2 ملزمان نے بھی سی ٹی ڈی اہلکاروں پر فائرنگ کی۔
ترجمان سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں دہشت گرد ذیشان ہلاک ہوگیا، جب کہ اس کے ساتھ کار میں سوار خاندان کے افراد بھی گولیوں کا نشانہ بنے۔
ترجمان کے مطابق گاڑی کے شیشے کالے تھے جس کے باعث پچھلی سیٹ پر بیٹھی خاتون اور بچے نظر نہیں آئے اور وہ بھی گولیوں کا نشانہ بنے، ہلاک دہشتگرد ذیشان کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا اور خاندان کو بورے والا چھوڑنے کے بعد اس کا منصوبہ تھا کہ وہ اسے خانیوال یا ملتان میں کہیں چھوڑ دے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شاید خلیل کے خاندان کو ذیشان سے متعلق معلوم نہیں تھا کہ وہ دہشت گرد بن چکا ہے، دہشت گرد نے خاندان کو استعمال کیا اور وہ اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔
سی ٹی ڈی ترجمان کی تیسری وضاحت:
ترجمان سی ٹی ڈی نے ساہیوال واقعے پر تیسری مرتبہ جاری بیان میں کہا کہ ساہیوال شوٹ آؤٹ کے بعد کوئی فائرنگ نہیں ہوئی، میڈیا پر چلنے والی ویڈیو وقوعے کے بعد کی ہے اس لیے قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔
ترجمان سی ٹی ڈی نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہونے دیں، میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے، اگر کوئی بدنیتی ہوئی تو ثابت ہو جائے گی، اگر کوئی بدنیتی یا غیر ذمہ داری پائی گئی تو ذمہ داران کو سزا ملے گی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پنجاب کا دہشت گردی سے پاک ہونا کوئی جادو نہیں بلکہ سی ٹی ڈی کی محنت کا نتیجہ ہے، عوام یہ بات نہ بھولیں کہ صرف 2014 میں دہشتگردی کے 43 واقعات ہوئے اور سی ٹی ڈی پنجاب نئے فیصلہ کیا کہ صوبے کو دہشتگردی سے بچانا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ سی ٹی ڈی پنجاب نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، ساہیوال میں 2017 میں دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی افسر کو شہید اور 2016 میں ایک اور واقعے میں ایک افسر زخمی بھی ہوا۔
ترجمان سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ حملوں کے باوجود سی ٹی ڈی دہشت گردی کیخلاف لڑتی رہی، سی ٹی ڈی کی قربانیوں کو کبھی بھولا نہیں جا سکتا، ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور ہمیں دہشتگردوں کو یکجہتی دکھانا ہوگی۔
ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ:
ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں مارے گئے افراد کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق 13 سالہ بچی اریبہ کو 6 گولیاں لگیں، والدہ نبیلہ بیگم کو 4 گولیاں لگیں، والد خلیل کو 13 گولیاں ماریں گئیں جب کہ کار ڈرائيور ذیشان کو 10 گولیاں ماری گئیں۔
سی ٹی ڈی کی کارروائی میں زخمی تینوں بچوں کو لاہور کے جنرل اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں انہیں طبی امداد دی گئی۔
تینوں بچے خطرے سے باہر ہیں تاہم عمیر ٹانگ میں گولی لگنے کے باعث اور منیبہ گاڑی کے شیشے ٹوٹنے کی وجہ سے زخمی ہونے ہوئی جب کہ 4 سالہ ہادیہ محفوظ ہے جسے گھر بھیج دیا گیا ہے۔
واقعے کا پس منظر:
گزشتہ روز جی ٹی روڈ پر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی نے مشکوک مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 انسانی زندگیاں چھین لیں، مرنے والوں کو داعش کا دہشت گرد قرار دیا گیا، اہل کاروں نے پہلے گاڑی کے ٹائروں پر گولیاں ماریں، گاڑی بیرئیر سے ٹکرائی تو ونڈ اسکرین اور پچھلے دروازے سے فائرنگ کر کے کار سواروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق کار سواروں نے نہ گولیاں چلائیں اور نہ اور کسی قسم کی مزاحمت کی، گاڑی سے اسلحہ نہیں بلکہ کپڑوں کے بیگ ملے۔