22 جنوری ، 2019
ساہیوال واقعے کو 'سانحہ' کہنا مارے جانے والوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی کیوں کہ یہ سانحہ نہیں بلکہ خالصتاً ایک ادارے کی نااہلی اور اہلکاروں کے غیرپیشہ ورانہ رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اگر واقعے کی مختلف ویڈیوز منظر عام پر نہ آتیں تو اس واقعے کو بھی سی ٹی ڈی ترجمان کے بیان کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف 'بڑی کامیابی' ہی قرار دیا جاتا اور خبروں میں بھی یہی چلتا رہتا کہ دہشت گردی کا بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا لیکن بھلا ہو اُن افراد کا جنہوں نے اپنے موبائل فون سے واقعے کی ویڈیوز بنائیں اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کی نااہلی پوری قوم کو دکھائی۔
واقعے میں بچ جانے والے معصوم بچوں کو ایک پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا گیا، تاہم تھوڑی دیر بعد معاملے کی حساسیت کا اندازہ ہونے کے بعد بچوں کو وہاں سے اسپتال منتقل کیا گیا، یہ واقعے کے وہ تلخ حقائق ہیں جو سی ٹی ڈی کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جاری کردہ بیان کو مصدقہ مانا جاتا ہے لیکن ساہیوال واقعے کے بعد سی ٹی ڈی ترجمان کے تضادات سے بھرے بیانات نے اس ادارے پر سے عوام کا اعتماد اٹھا دیا ہے، سی ٹی ڈی ترجمان کی بات اگر تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لی جائے کہ واقعے میں مرنے والا ذیشان دہشت گرد ہے تو گورنر پنجاب چوہدری سرور کیوں اُس کے گھر جا کر تعزیت کر آئے؟ ایسے میں سی ٹی ڈی کا بیان درست ہے یا ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کا فعل جس نے سی ٹی ڈی ترجمان کے بیان کے بر خلاف ذیشان کے گھر جا کر تعزیت کی؟
سی ٹی ڈی ترجمان کی جانب سے دروغ گوئی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل ایک واقعہ کراچی میں بھی پیش آیا، جہاں سی ٹی ڈی نے صحافی نصراللہ چوہدری کے گھر پر رات کے اندھیرے میں چھاپہ مارا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے، تین روز کے بعد جب صحافی کو عدالت میں پیش کیا گیا تو ترجمان سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں مذکورہ صحافی پر مذہبی منافرت پھیلانے، جہاد کے لیے لوگوں کو اُکسانے اور پاک فوج کے خلاف لٹریچر رکھنے کا الزام لگانے سمیت کالعدم تنظیم القاعدہ کے دہشت گرد کا قریبی ساتھی اور سہولت کار بھی قرار دیا۔
معاملہ جب عدالت میں آیا تو سی ٹی ڈی پراسیکیوٹر کا مؤقف یکسر مختلف تھا جس کے بعد جج نے سی ٹی ڈی کی ریمانڈ کی درخواست مسترد کی اور صحافی کو 23 روز بعد ضمانت پر رہائی ملی۔
اگر ایک صحافی کے گھر سے لٹریچر ملنے کی بنیاد پر اسے دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے تو ساہیوال واقعے میں مارے جانے والی 13 سالہ اربیہ، اس کی ماں، والد خلیل اور گاڑی چلانے والا ذیشان تو پھر بھی عام شہری تھے، انہیں دہشت گرد قرار دینا تو سی ٹی ڈی کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، لیکن کچھ فیصلے قدرت کے ہاں ہوتے ہیں اور شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ اہلکار موقع پر کچھ خامیاں چھوڑ گئے، جو اُن کی پیشہ ورانہ غفلت بلکہ یوں کہیں کہ جرائم پیشہ رویے کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔
19 جنوری کی دوپہر جی ٹی روڈ پر اڈا قادرآباد کے قریب سی ٹی ڈی اہلکاروں نے غیر پیشہ ورانہ انداز میں گاڑی پر گولیاں برسائیں، جس کے بعد بچ جانے والے معصوم بچوں کو لاوارثوں کی طرح ایک پیٹرول پمپ پر زخمی حالت میں چھوڑ دیا گیا، یہ تو رہی واقعے کی ابتدائی طور پر دکھائی دینے والی تصویر لیکن دوسری جانب سی ٹی ڈی ترجمان گاڑی چلانے والے ذیشان نامی شخص کو دہشت گرد قرار دینے پر بضد ہیں، نہ جانے سی ٹی ڈی کو کس نے اختیار دیا کہ خود ہی کسی کو دہشت گرد قرار دیا جائے اور خود ہی عدالت لگا کر ملزم کو سڑک پر بے دردی سے سزا بھی دے دی جائے، کیا ریاست کے قانون میں اس کی کوئی اجازت ہے؟ یا ریاست کے ذمہ داروں نے عام شہریوں کو اس طرح بے دردی سے مارنے کے لیے بندوق تھامے اہلکاروں کو سڑکوں پر کھلا چھوڑ رکھا ہے؟
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس سے کسی ادارے کی نااہلی اور غیر پیشہ ورانہ انداز نمایاں ہوتا ہو، اس سے قبل مئی 2011 میں کوئٹہ کے علاقے خروٹ آباد میں بھی 5 غیر ملکیوں کو ایف سی اہلکاروں نے چوکی پر گولیاں برسا کر مار دیا تھا، ان میں سے ایک خاتون ہاتھ اٹھا کر رحم کی اپیل بھی کرتی رہی لیکن اہلکاروں کو رحم نہ آیا۔ واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تو معاملے پر بہت شور شرابہ ہوا لیکن اس سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا اور ایک ماہ بعد ہی کراچی کے بے نظیر بھٹو پارک میں رینجرز کے ہاتھوں ایک اور نوجوان سرفراز شاہ مارا گیا۔
سرفراز شاہ کا واقعہ بھی اُس وقت میڈیا کی زینت بنا جب اس کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی، جس میں رحم کی اپیل کرتے سرفراز پر رینجرز اہلکار پستول تانے کھڑے تھے، خیر یہ معاملہ بھی کچھ عرصے بعد دب گیا اور پھر کراچی میں ہی ناگن چورنگی کے قریب رینجرز اہلکار کے ہاتھوں سڑک پر خاتون کے سامنے اس کے شوہر کو مار دیا گیا۔
نقیب اللہ محسود کو کون بھول سکتا ہے، جس کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ شاہ لطیف ٹاؤن میں مقابلے میں تین دہشت گرد مارے گئے، لیکن پھر سوشل میڈیا پر وزیرستان کے اس نوجوان کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد اس پولیس مقابلے کا اصل چہرہ سامنے آیا۔
صحافت کا ایک ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر رپورٹرز کی سستی، حقائق کو پرکھنے اور جائے وقوع کا دورہ کیے بغیر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیزوں کو ہی رپورٹ کردیا جاتا ہے، لیکن واقعی سوال یہ ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی پریس ریلیز صحافی کا ذرائع کس طرح ہوسکتی ہے، اگر کوئی مقابلہ ہے تو پولیس خود اس میں ایک فریق ہے، حقائق کی درستگی اور واقعے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر اسے رپورٹ کرنا بنیادی صحافت کے رموز کا اہم جز ہے لیکن پولیس مقابلوں میں اکثر اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
نقیب اللہ قتل کیس میں بھی ایسا ہی ہوا، پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان کو ہی رپورٹ کیا گیا اور 'انکاؤنٹر اسپیشلسٹ' کے نام سے مشہور سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے مقابلوں کے بارے میں معلومات ہونے کے باوجود پولیس کے مؤقف کو ہی خبروں کی زینت بنایا گیا، تاہم جب نقیب کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو اس پر بحث شروع ہوئی اور تحقیقات کا آغاز ہوا۔
بدقسمتی سے جعلی پولیس مقابلوں کو مختلف ٹی وی پروگراموں میں بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار اداروں کو اصل کام سے ہٹا کر مصنوعی کام پر لگادیا گیا ہے۔
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کو سیکیورٹی اداروں کی ساکھ بہتر کرنے کے لیے سنجیدگی سے نہ صرف سوچنا ہوگا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ جعلی مقابلے مستقبل میں نہ ہوں اور اگر کوئی ملزم ہے تو سڑکوں پر عدالت لگانے کے بجائے تمام شواہد اکٹھے کیے جانے کے بعد عدالتوں سے ملزم کو سزا دلوائی جائے، ایسا نہ ہو کہ پولیس اصل مقابلے بھی کرے تو عوام کی ہمدردی پولیس اہلکاروں کے بجائے مرنے والے ملزم کے ساتھ ہو، اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو سیکیورٹی ادارے بے توقیر ہو کر اپنی اہمیت کھو بیٹھیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔