Time 24 جنوری ، 2019
پاکستان

سندھ حکومت کراچی کو اصل ماسٹر پلان کے تحت بحال کرنے کا فیصلہ کرے: سپریم کورٹ


کراچی: سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو کابینہ کا اجلاس بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کراچی کو اصل ماسٹر پلان کے تحت بحال کرنے کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں رہائشی پلاٹس کو کمرشل میں تبدیل کرنے اور تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ عدالت میں پیش ہوئے اور صوبائی حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کی۔

ہم یہاں لوری سن کر سونے کے لیے نہیں بیٹھے: جسٹس گلزار احمد

عدالت نے سندھ حکومت کی رپورٹ مسترد کردی اور جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کی یہ رپورٹ کسی کام کی نہیں ہے، اچھا ہوگا یہ کہ رپورٹ آپ ابھی واپس لے لیں، اگر اس رپورٹ پر ہم نے آرڈر کیا تو آپ کی پوری حکومت ہل جائے گی۔

معزز جج نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ ہمیں لوری مت سنائیں، اے جی صاحب آپ کو پتا ہے لوری سنانے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے لوری سنو اور سوجاؤ، ہم یہاں لوری سن کر سونے کے لیے نہیں بیٹھے، آپ کے پاس ممتاز علی شاہ جیسا چیف سیکریٹری ہے، پھر بھی کچھ نہیں کرپارہے، بیورکریٹ تو صرف اپنی سوچتے ہیں، عوام سے ان کا کیا لینا دینا۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو آئندہ سیشن میں آرکیٹیکچر کے ساتھ مشورہ کرکے جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس گلزار نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا، یہ بتائیں کہ شہر اصل ماسٹر پلان کے تحت بحال ہوگا؟

وزیراعلیٰ کو اجلاس بلانے کی ہدایت

عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ کو کابینہ کا اجلاس بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں کراچی کو اصل ماسٹر پلان کے تحت بحال کرنے کا فیصلہ کریں، آئندہ دو ہفتوں کے بعد جامع رپورٹ میں سندھ کابینہ کا فیصلہ بھی شامل ہو۔

عدالت نے دورانِ سماعت کے ایم سی اور کنٹوئمنٹ بورڈ کے حکام کی عدم موجودگی پر برہمی کااظہار کیا اور ایم ڈی واٹربورڈ سے سوال کیا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ 2 کی زمین خالی ہوئی کہ نہیں؟

ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ آپ کے حکم کے مطابق ٹی پی 2 کا معاملہ کے ایم سی کے سپرد ہے، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ تو ابھی تک خالی کیوں نہیں ہوا؟ عدالت نے ٹی پی ٹو کی زمین پر قبضہ فوری ختم کرانے اور خالی زمین پر عوامی پارک بنانے کا حکم دیا۔

ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو پورا سمندر پر سٹی بنالیں: عدالت

جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ دیکھیں ڈی ایچ اے والوں نے ساحلی پٹی کے ساتھ کیا کیا ہے، ڈی ایچ اے والے ساحلی پٹی میں کہاں تک اندر گھس گئے ہیں، ڈی ایچ  اے والوں کا بس چلے تو پورے سمندر پر سٹی بنالیں، ڈی ایچ اے والے سمندر انکروچمنٹ کرکے امریکا تک اپنا جھنڈا لگا دیں۔

ایک بار پھر فوجی زمین پر کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم 

عدالت نے ایک بار پھر فوجی زمینوں پر تمام کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ نیوی اور سول ایوی ایشن شادی ہال اور سینما چلا رہے ہیں،کیا یہ ان کا کام ہے؟ ائیرپورٹ پروہاں شادی ہال ہے جہاں حملہ ہوا تھا، کوئی تو بولے اتنے لوگ کمرہ عدالت میں بیٹھے ہیں۔

’نیوی اور ایوی ایشن شادی ہال اور سینما چلا رہے ہیں،کیا یہ ان کا کام ہے‘؟

معزز جج نے کہا کہ سی او ڈی کا کسی کوپتا ہے، اس کا مطلب ہے اسلحہ ذخیرہ کرنےکی جگہ، خدا کا خوف کرو سی او ڈی میں آپ شادی ہال چلا رہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ایک افسر کی خواہش پر اشتہار کے لیے سڑکوں پر دیواریں بنائی جارہی ہیں، ان دیواروں کے پیچھے پھر بڑی بڑی عمارتیں بنائی جارہی ہیں، ان کا بس چلے تو سڑکوں پر عمارتیں کھڑی کردیں۔

جسٹس گلزار نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہاکہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب، بیرون ملک سے ٹاؤن پلانرز بلائیں اور مشورہ کریں، شہر ایسے ہوتے ہیں، جائیں انگریزوں سے ہی پوچھ لیں، مئیر لندن صادق خان پاکستانی نژاد ہے، انہی سے پوچھیں شہر کیسے بسائے جاتے ہیں۔

ملیر ندی پر قائم ہر قسم کی عمارتیں گرانا ہوں گی: جسٹس گلزار احمد

معزز جج نے ریمارکس دیے کہ ملیر ندی پر قائم ہر قسم کی عمارتیں گرانا ہوں گی، جائیں لائنز ایریا گرائیں اور کثیرالمنزلہ عمارتیں بنا کرلوگوں کو بہتر سہولتیں دیں، سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، ہر کوئی امریکا اور کینیڈا میں جائیداد بنانا چاہتا ہے، ایڈووکیٹ جنرل صاحب، آپ اور سب جانتے ہیں یہاں ہو کیارہا ہے، یہ بیوروکریٹس عوام کے پیسے پر پلتے ہیں مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔

جسٹس گلزار نے سندھ حکومت کو 2 ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ شہر کا کرنا کیا ہے؟ قوم کے وژن کو اس طرح تباہ کرتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل صاحب،شہر کی تباہی کا کوئی تو ذمہ دار ہے۔

پرانی سبزی منڈی کی ساری زمین پر عوامی پارک بنانے کا حکم

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب ہمیں تو شرم آرہی ہے، شہر میں گیس بند، بجلی بند، پانی بند اور روڈ بند، کیا کررہے ہیں آپ؟ 

عدالت نے پرانی سبزی منڈی کی ساری زمین پر عوامی پارک بنانے کا حکم دیا۔

پی آئی اے اراضی پر بھی قومی ائیرلائن کے چیئرمین کو نوٹس جاری

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ سنا ہے پی آئی اے ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد جا رہا ہے، ہیڈ آفس اسلام آباد گیا تو جگہ کا کیا استعمال کریں گے؟ یہ بتائیں پرانے ائیر پورٹ کی زمین کا کیا استعمال کیا؟

معزز جج نے کہا کہ معلوم ہے دنیا بھر سے آنے والے کراچی کے بجائے اسلام آباد کیوں اترتے ہیں؟ یہ کہیں آپ نے کراچی میں ایسا کیا کیا جو لوگ یہاں آئیں؟ جو حال شہر کا کیا ہے لوگ یہاں کیسے آئیں گے۔

 عدالت نے پی آئی اے کے چیئرمین کو بھی نوٹس جاری کیا اور جسٹس گلزار نے کہا کہ پی آئی اے کی اراضی پر کیا ہو رہا ہے چیرمین پی آئی اے رپورٹ پیش کریں۔

عدالت کا پولیس کی کارکردگی پر اظہارِ برہمی

دورانِ سماعت عدالت نے امن و امان کی صورت حال اور پولیس کی کارکردگی پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ پولیس کا رویہ اور کارکردگی شرمناک ہے، یہ پولیس والے کسی وجہ کے بغیر چلتے آدمی کو ماردیتے ہیں، فیملی گاڑی میں سفر کررہی ہے اسے بھی ماردیتے ہیں، انہوں نےپانچ سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا کیا وہ دہشت گردی تھی ؟ ختم کردیں ایسی پولیس،کوئی دوسری فورس لائیں۔

معزز جج نے ریمارکس دیے کہ عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں مگر عوام کیلئے کچھ نہیں کرتے۔

عدالت کا عسکری پارک کو سول ادارے کے ماتحت دینے کا حکم

عدالت نے عسکری پارک سے متعلق بھی بڑا فیصلہ دیا اور پارک کو فوری طور پر سول ادارے کے ماتحت کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ پرانی سبزی منڈی پر قائم عسکری پارک عوام الناس کے لیے کھولا جائے، عزیز بھٹی پارک کو ماڈل پارک بنایا جائے۔

کراچی کے پارکوں کو شہیدوں کے نام پر بیچ دیا: جسٹس گلزار

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ کراچی کے پارکوں کو شہیدوں کے نام پر بیچ دیا گیا۔

عدالت نے شہر میں بجلی کی پھیلی ہوئی تاروں پر سخت ناراضی کا اظہار کیا۔

جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ جگہ جگہ تاروں کا جنگل کیوں پھیلا ہوا ہے، کوئی نہیں جو اس شہر کے بارے میں سوچنے والا ہو۔

کوئی نہیں جو اس شہر کے بارے میں سوچنے والا ہو: سپریم کورٹ

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے استدعاکی کہ فیصلے میں سخت الفاظ استعمال نہ کیے جائیں، اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل ہمارے سامنے بیان دیتے ہوئے شرما کیوں رہے ہی، یہ ہمارا ذاتی کام نہیں, یہ ذمہ داری اداروں کی بنتی تھی۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے کہا کہ وعدہ کرتا ہوں، چیف سیکریٹری اور میں مربوط پلان دیں گے، مہلت دی جائے۔

مزید خبریں :