پیچیدہ ڈیموگرافی اور سنگین مسائل: کراچی کی غیرقانونی بستیوں اور عمارتوں کا ذمہ دار کون؟

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا اختیار شہر کے صرف 35 فیصد حصے پر ہے، اس کے علاوہ کینٹونمنٹ، وفاقی زمین، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمین کے ذمہ دار ادارے وہ خود ہیں۔

اگر آپ فلیٹ یا پلاٹ خریدنا چاہتے ہیں یا مستقبل قریب میں اس کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے آپ زمین کی خریداری کے بنیادی رموز سے ضرور واقفیت حاصل کرلیں کیوں کہ اکثر لوگ پلاٹ یا فلیٹ کی چمک دمک دیکھ کر اپنی زندگی بھر کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اکثر ایسے کیسز دیکھنے کو ملتے ہیں کہ لوگ بیسیاں (کمیٹیاں) ڈال کر یا کسی بھی طرح ایک ایک پائی جوڑ کر جائیداد خریدتے ہیں اور جب رہائش اختیار کرنے کا وقت آتا ہے تو تب علم ہوتا ہے کہ زمین لیز نہیں یا زمین پر تنازع کی وجہ سے قانونی طور پر فروخت نہیں کی جاسکتی تھی، ایسے متاثرین افراد کے پاس پھر سڑک پر رہنے اور احتجاج کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں ہوتا۔ 

اس لیے متاثرینِ فلیٹ یا متاثرینِ پلاٹ بننے سے پہلے آپ اچھی طرح اطمینان کرلیں کہ جو زمین آپ لینے کے خواہشمند ہیں، وہ لیز ہے یا نہیں اور جب یہ اطمینان ہو جائے کہ زمین لیز ہے تو یہی دیکھ کر آپ کو اپنا سرمایہ نہیں لگانا، کیوں کہ دوسرا مرحلہ زمین یا فلیٹ کے تنازع کا آتا ہے۔

کراچی میں زمین کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے کیوں کہ یہاں مختلف علاقوں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز ہیں، شہر کی کچھ زمین کی ملکیت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے پاس ہے، کچھ کینٹونمنٹ بورڈ کے پاس، کچھ وفاق کے پاس، کچھ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پاس، کچھ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس تو کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے پاس۔

شہر تیزی سے تین سمتوں کی طرف بڑھ رہا ہے، ایک طرف شہر کا ایک حصہ بلوچستان کے شہر حب کی جانب بڑھ رہا ہے، دوسری طرف شہر ملیر سے ہوتا ہوا ٹھٹھہ کی طرف جارہا ہے، تیسری طرف آبادی تیزی سے سہراب گوٹھ، بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی سے ہوتی ہوئی کراچی اور حیدرآباد کے درمیان واقع صنعتی شہر نوری آباد کی طرف بڑھ رہی ہے۔

شہر کے اندر کی صورتحال یہ ہے کہ ماسٹر پلان کو پس پشت ڈال کر جگہ جگہ آبادیاں بنادی گئی ہیں تاہم تجاوزات کے خلاف حالیہ جتنا بڑا آپریشن کراچی میں کیا گیا شاید ہی ملک کے کسی شہر میں ہوا ہو، تجاوزات کی آڑ میں کئی قدیم بازار صفحہ ہستی سے مٹادیے گئے اور کئی کی باری آنا باقی ہے، اور تو اور سپریم کورٹ کے حالیہ احکامات کے بعد کراچی کو اس کے ماسٹر پلان کے مطابق دوبارہ اصل شکل میں لانا ہے جس کے لیے رہائشی علاقوں میں کاروباری مقاصد کے لیے قائم کی گئیں سیکڑوں عمارتوں کو منہدم کرنا ہے۔

اس شہر کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ماسٹر پلان میں موجود وہ مقامات جہاں کھیلوں کے میدان، تفریح کے لیے پارکس، لائبریریوں کے لیے مختص جگہیں تھیں وہاں لوگوں کو بسا دیا گیا، ایسا کسی مخصوص علاقے میں نہیں بلکہ شہر بھر میں ہوا، یہی نہیں ذمہ دار اداروں نے ہی نالوں اور سڑکوں پر دکانیں قائم کرتے ہوئے لوگوں کو کرائے پر دیں اور اس سے سالوں پیسے کمائے اور اب ان غیر قانونی تعمیرات کے صفائے کا وقت آیا ہے تو ذمہ دار اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے نقصان صرف عام لوگوں کا کیا جارہا ہے۔

اس قدر گھمبیر صورتحال ہے کہ عمارتوں کو ایک حدود میں بلند تعمیرات کی اجازت دینے اور اس سے روکنے والے ذمہ دار ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا اختیار شہر کے صرف 35 فیصد حصے پر ہے، اس کے علاوہ کینٹونمنٹ، فیڈرل لینڈ، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمین کے ذمہ دار ادارے وہ خود ہیں۔

کراچی کی وہ زمین جو کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے نیچے آتی ہے، اس کی لیز دینے کا مجاز ادارہ لینڈ ڈیپارٹمنٹ ہے اور اگر کوئی شخص تعمیر شدہ گھر یا فلیٹ لیتا ہے تو اس سے متعلق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی اجازت درکار ہوگی، اور ان تمام مجاز اداروں کے دفاتر 'سوک سینٹر' میں موجود ہیں جہاں کوئی بھی شخص جائیداد کی دستاویزات کی تصدیق کراسکتا ہے۔

کراچی میں حالیہ تجاوزات کے خلاف آپریشن اور عوامی شکایات سامنے آنے کے بعد شہر کی زمین کی تقسیم کی اس قدر پیچیدہ صورتحال کی معلومات جمع کرنے کے لیے ہم نے 'سوک سینٹر' کا رخ کیا جہاں متعلقہ افسران سے شہر میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات، اس کی وجوہات، ذمہ دار اداروں کے کردار اور عنقریب کی جانے والی مزید توڑ پھوڑ پر بات چیت کی گئی۔


سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ضمیر ایوب سے کراچی میں تجاوزات کیخلاف ہونے والے آپریشن سے متعلق بات چیت کی جنہوں نے اپنی معذوری ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ شہر کا 35 فیصد علاقہ ہی ان کے ادارے کی حدود میں آتا ہے اور ان کا ادارہ اپنی حدود میں موجود رہائشی تعمیرات کی تصدیق و منظوری دے سکتا ہے۔ 

شہر کراچی کے 6 اضلاع کے 18 ٹاؤنز سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ماتحت آتے ہیں جس کی تفصیلات نیچے دی گئی تصاویر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

زمین و تعمیر شدہ مکانات اور عمارات کی تصدیق سے متعلق مجاز ادارے سوک سینٹر میں موجود ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر علاقوں میں ہر متعلقہ ادارہ اس کا مجاز ہے جیسے اگر کے پی ٹی کی حدود میں کسی زمین کی تصدیق کرنی ہے یا وہاں تعمیرات کرنی ہے تو کے پی ڈی کا محکمہ ہی اس جگہ کی منظوری دے گا۔

جائیداد کی مختلف فائلوں کا ہونا

جائیداد کی ایک سے زائد فائلوں کا ہونا متعلقہ محکمے کے لیے بھی درد سر بنا ہوا ہے کیوں کہ اس طرح کے کئی کیسز مل جائیں گے جس میں ایک ہی زمین کے کئی کئی مالک ہونے والے دعویدار ہوتے ہیں اور ہر کسی کے پاس زمین کی فائل ہوتی ہے، اس لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ضمیر ایوب تجویز دیتے ہیں کہ جب بھی آپ پلاٹ، گھر، فلیٹ یا دکان کی خریداری کریں تو ادائیگی سے قبل متعلقہ محکمے سے اس کی فائل کی ضرور تصدیق کرالیں تاکہ آپ کو یقین ہوسکے کہ جس جائیداد کو آپ خریدنے جارہے ہیں اس کے آپ ہی مالک ہیں۔

متنازع جائیداد کی تصدیق

اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایس بی سی اے نے مزید بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کسی بھی ایسی جگہ پر تعمیرات کی منظوری نہیں دیتا جو کسی بھی طریقے سے متنازع ہو، یعنی اس کا معاملہ عدالت میں ہو یا اس پر کوئی جائیداد کا جھگڑا چل رہا ہو۔

حکومت لیز پر دی گئی جگہ جب چاہے واپس لے سکتی ہے

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک اور افسر نے کراچی میں ہونے والی تعمیرات کے حوالے سے جہاں اپنے ادارے کی غلطی کو تسلیم کیا وہیں انہوں نے پورے سسٹم میں خرابی کی نشاندہی بھی کی۔

ایس بی سی اے کے سینئر بلڈنگ انسپکٹر عامر حسین نے بتایا کہ حکومت جب کسی کو کوئی جگہ 99 سال یا 30 سال کی لیز پر دیتی ہے تو آخر میں ایک لائن لکھی ہوتی ہے کہ حکومت جب چاہے گی اس جگہ کو خالی کرانے کا حق رکھتی ہے یعنی یہ حکومت کی پراپرٹی ہے اور اس نے آپ کو لیز پر دی ہے۔

صرف ایس بی سی اے کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے ادارے کے لوگوں نے کسی جگہ پر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دی ہے تو یہ ہماری غلطی ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس جگہ پر کے الیکٹرک کے میٹر کس طرح لگ گئے؟ گیس کا کنکشن کس طرح مل گیا؟ ٹیلی فون کیسے لگ گیا؟ اس جگہ پر پانی کے کنکشن کی اجازت کس طرح سے مل گئی؟ یہ سارے کام تو ہمارے ادارے کے لوگوں کی اجازت سے نہیں ہوتے، یعنی صرف ایس بی سی اے پر سارا ملبہ ڈال دینا ٹھیک نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس ادارے میں خامیاں ہیں انہیں دور کر کے سسٹم کو ٹھیک کیا جائے، لیکن ہم لوگ سسٹم ٹھیک کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام لگا کر جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

ایس بی سی اے کے سینئر بلڈنگ انسپکٹر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہیں تو شہر میں دو گز کی جگہ پر قبضے کی کوشش کی جائے تو پتہ نہیں کون کون سے ادارے پوچھ گچھ کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور کہیں تو پوری آبادی پر قبضہ ہو جاتا ہے اور کوئی پوچھتا تک نہیں، یعنی یہ کام سب اداروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو جس علاقے میں طاقتور ہے جو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے، کبھی ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہیں اور کبھی پستول کنپٹی پر رکھ دی جاتی ہے۔

عامر حسین نے بتایا کہ نظامت کے دور میں نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کے پاس بہت زیادہ اختیارات تھے اور وہ جس جگہ سے کسی آبادی کو ہٹاتے تھے عوام کو اس کا متبادل بھی دیا جاتا تھا۔

انہوں نے صدر سے لائنز ایریا کی جانب جانے والی سڑک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس سڑک کی تعمیر کے دوران جن لوگوں کے گھر گرے تھے انہیں اس وقت کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے محمود آباد میں جگہ فراہم کی، اب چیف جسٹس آف پاکستان کے احکامات ہیں کہ وہ جگہ تو فلٹر پلانٹ کی تھی اس لیے اس جگہ کو خالی کروایا جائے تو حکومت جب چاہے اس جگہ کو خالی کرانے کا اختیار رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے قوانین کو موم کی ناک ہیں جس کا جہاں دل چاہتا ہے اسے اس طرف موڑ دیتا ہے، بااثر لوگ چاہے وہ سیاسی ہوں یا پھر بلڈرز، ہمارے ادارے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اگر کسی کو ہاتھی مارنا ہو تو وہ ہتھیار بھی اس کی جسامت کا چنے گا: عامر حسین

اگر نچلی سطح پر طاقتور لوگوں کا کام نہ بن رہا ہو تو پھر وہ اعلیٰ حکام سے ملی بھگت کر کے اپنے کام نکلوا لیتے ہیں، سید عامر نے اس کی مثال کچھ یوں دی کہ اگر کسی کو مکھی مارنی ہو تو وہ اخبار کا استعمال کرے گا لیکن اگر کسی کو ہاتھی مارنا ہو تو وہ ہتھیار بھی اس کی جسامت کا چنے گا۔

سینئر بلڈنگ افسر نے بتایا کہ جہاں ہمارے ادارے کی کوتاہیاں ہیں وہیں عوام بھی تو اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اگر سروے کے دوران کوئی غیر قانونی تعمیر ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتی ہے تو جو لوگ اس جگہ 24 گھنٹے رہ رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں اس کی شکایت کر سکتے ہیں، اگر ہمارے پاس کوئی شکایت لے کر آتا ہے تو اس پر عمل درآمد ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے بھی ہمارے پاس بہت سی شکایات ایسی آتی ہیں کہ بھائی نے پیسے لینے کے لیے بھائی کی شکایت کردی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کے حوالے سے عامر حسین نے بتایا کہ عدالت کے احکامات پر عمل کرنا ہماری ذمہ داری بھی ہے اور مجبوری بھی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں قائم 900 کے قریب غیر قانونی عمارتوں کو منہدم کرنے کے حوالے سے ایس بی سی اے کے افسر نے بتایا کہ اس وقت اس آپریشن کے لیے ہمارے پاس ایک چوتھائی ورک فورس اور مشینری میسر نہیں ہے، اگر عدالت حکومت سندھ کو احکامات جاری کرے کہ وہ ہمیں مشینری اور ورک فورس فراہم کردے تو ہم احکامات پر من و عن عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عامر حسین نے ایک پرانے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ عدالت نے کے بی سی اے (اس وقت ادارہ بلدیاتی حکومت کے ماتحت تھا) کو حکم دیا کہ مارٹن کوارٹرز جو کہ وفاقی حکومت کے ماتحت آتے ہیں وہاں غیر قانونی تعمیرات کو گرا دیا جائے، جب ہمارے ادارے کے لوگ وہاں پہنچے تو وہاں کے ایم سی اور بلدیہ سمیت پولیس کی نفری بھی موجود تھی لیکن جب اہل علاقہ نے تھوڑی مزاحمت دکھائی تو کے ایم سی، بلدیہ اور پولیس نفری وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی اور کے بی سی اے کے دو تین لوگوں کے سر پھٹ گئے۔

انہوں نے اسی طرح کے ایک اور دلخراش واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ گلبرگ میں جب ہم ایک غیر قانونی تعمیرات توڑنے کے لیے پہنچے تو ہمارے پاس تین پولیس موبائلیں اور ایک ہمارے ادارے کی پولیس موبائل تھی لیکن صرف 20 لوگ جمع ہوئے تو سارے پولیس اہلکار وہاں سے بھاگ گئے اور عوام نے ہمیں پکڑ لیا۔

پرویز مشرف نے نالے بھی صاف کروائے

سینئر افسر بلڈنگ کنڑول اتھارٹی نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ہم سے تو پرویز مشرف کے دور میں ایک ہفتے تک نالے بھی صاف کروائے گئے۔

ایک سوال کے جواب میں عامر حسین نے کہا کہ مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کے ایم سی اور کے ڈی اے، دو ادارے کیوں کام کر رہے ہیں جب کہ دونوں ایک ہی ادارے کے نیچے آتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہر میں ایک ہی سسٹم ہونا چاہیے، یعنی اگر کنٹونمنٹ بورڈ اچھا کام کر رہا ہے تو سی بی سی اے کو بھی اسی کے ماتحت کر دیا جائے تاکہ اس ساری جھنجھٹ سے جان چھوٹ جائے کہ یہ علاقہ فلاں ادارے کے ماتحت ہے اور وہ علاقہ فلاں ادارے کے نیچے آتا ہے۔