روشنیوں کے شہر کراچی میں زیر زمین بسی ایک چھوٹی سی دنیا

کہتے ہیں کہ کسی بھی شہر اور انسان کو مکمل طور پر جان لینے کا دعویٰ غلط ہی ثابت ہوتا ہے۔

کراچی وہ شہر ہے جو بار بار حیرت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس شہر کو جان لینے کا جتنا بھی دعویٰ کیا جائے، ہر روز کچھ نہ کچھ نیا سامنے آہی جاتا ہے۔

شہر میں سڑک کنارے ٹھیلوں پر مشتمل بازاروں سے لے کر چھوٹی دکانوں اور وسیع و عریض رقبے پر پھیلے تنگ گلیوں والے بازار، کچھ اشیا کے مخصوص بازار اور پھر آنکھیں چکا چوند کر دینے والے جدت لیے بڑے بڑے شاپنگ مالز، سب موجود ہیں۔

لوگ ضرورت کے تحت شاپنگ کرنے یا شوقیہ اور وقت گزارنے کے لیے بھی ان بازاروں کا رخ کرلیتے ہیں۔

لیکن کراچی کی سڑکوں کے بچھے ہوئے جال کے نیچے ایسے  شاپنگ سینٹر بھی موجود ہیں، جن کا استعمال شاپنگ کے ساتھ ساتھ سڑک پار کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ یہ ہیں سب وے مارکیٹ ، نام سے تو جدید ترین مارکیٹس (بازار) لگتے ہیں لیکن یہ کراچی کی مصروف ترین سڑکوں کے نیچے کئی برسوں سے موجود ہیں۔

سب وے مارکیٹ ، لیاقت آباد

لاہور کے مینار پاکستان کی یادگار ایک چھوٹا مینار پاکستان لیاقت آباد میں بھی موجود ہے۔فوٹو کریڈٹ:افراح امام

لیاقت آباد کے مرکزی بازار کا رخ لوگ کم نرخوں پر اشیا کی خریداری کے لیے کرتے ہیں، یہاں ایک ہی بڑے بازار میں کئی مخصوص بازار جیسے سونے کے زیورات، تیل، مصالحہ جات، برتن کے بازار ہیں۔

لیاقت آباد دس نمبر سے ڈاکخانے کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے نیچے بڑے بازار کے درمیان ایک چھوٹی سی دنیا، سب وے مارکیٹ آباد ہے۔اوپر سے گزرتے ہوئے شاید آپ اندازہ بھی نہ کر سکیں۔

لیاقت آباد میں مینار پاکستان کے نشان کے پاس ہی چھتری نما عمارت نظر آئے گی۔ اسی چھتری سے نیچے اترنے والی سیڑھیاں آپ کو سب وے مارکیٹ یا بازار میں لے جائیں گی۔

اوپر سڑک کے شور، اور بھاگتی گاڑیوں سے ہٹ کر اس بازار میں دکان داروں اور خریداروں کے شور میں کان پڑی آواز بھی سننا مشکل ہو جاتا ہے۔اس کے باوجود یہاں کاروبار خوب گہما گہمی کے ساتھ چلتا ہے۔ 

پہلی نظر میں لوگ ان سیڑھیوں کا مقصد نہیں سمجھ پاتے۔فوٹو کریڈٹ : افراح امام 
زیر زمین گزرگاہ کے طور پر زیادہ استعمال ہوتی ہے۔فوٹو کریڈٹ : افراح امام
زیر زمین مارکیٹ کا رخ خواتین سستی شاپنگ کے لیے کرتی ہیں۔فوٹو کریڈٹ : افراح امام

اس بازار میں موجود دکاندار اپنے کاروبار سے تو کسی حد تک مطمئن ہیں لیکن یہاں کے انتظامات سے نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہاں جو کچھ بھی کرنا پڑتا ہے وہ دکاندار اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہیں۔لوڈ شیڈنگ اور ہوا کا گزر نہ ہونا یہاں کا بڑا مسئلہ ہے جب کہ برسات کے موسم میں یہاں پانی بھی بھر جاتا ہے۔

اسی بازار میں کپڑوں کی دکان کے مالک محمد عدیل کا کہنا ہے کہ یہاں آنے والی خواتین بھاؤ تاؤ تو خوب کرتی ہیں لیکن یہاں صرف دس بیس روپے کے منافع پر کاروبار کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر خواتین اس مارکیٹ کا استعمال سڑک پار کرنے کی پریشانی سے بچنے کے لیے کرتی ہیں۔ اکثر کی سڑک بھی پار ہوتی ہے اور اسی بہانے ان کی 'ونڈو شاپنگ 'بھی ہو جاتی ہے۔

آصف صاحب کی اس مارکیٹ میں بچوں کے کپڑوں کی دکان ہے۔ ان کے مطابق تہواروں پر یہاں گہما گہمی بڑھ جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔موسم سرما میں حالات اس قدر خراب نہیں ہوتے لیکن ہوا کا گزر نہ ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں یہاں سانس لینا بھی محال ہوجاتا ہے۔

رش زیادہ ہونے کی صورت میں دکان دار اپنی دکانوں کے آگے سے اپنے اسٹال پیچھے ہٹا لیتے ہیں تاکہ لوگوں کا گزر ہو سکے۔

یہاں شاپنگ کرنے والی خواتین اس مارکیٹ کو سستا ترین بازار سمجھتی ہیں۔فوٹوکریڈٹ : افراح امام

اس مارکیٹ کی جتنی تاریخ بھی معلوم ہو سکی وہ دکانداروں کی زبانی ہی معلوم ہوئی۔

فاروق صاحب اس مارکیٹ کے افتتاح کے وقت یہیں موجود تھے۔ ان کے مطابق 7 مئی 1976 کو غلام مصطفیٰ جتوئی کے ہاتھوں اس مارکیٹ کا افتتاح ہوا۔ غلام مصطفیٰ جتوئی اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 

شروع میں یہ مارکیٹ صرف ایک زیر زمین گزر گاہ کے طور پر بنائی گئی تھی اور ساتھ ہی اس میں 40 کے قریب دکانیں بھی تعمیر کی گئیں جن میں مختلف کاروبار ہوتے تھے۔

اب یہاں مارکیٹ کے نام کی تختی تک موجود نہیں ہے۔کسی نے انڈر گراونڈ مارکیٹ کہا تو کسی نے سب وے اور کسی نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے زیر زمین بازار کہہ دیا۔

ظاہر شاہ کی اس سب مارکیٹ میں کپڑوں کی ایک نہیں دو دکانیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ شروع میں اس مارکیٹ میں صرف کیسٹوں کی دکانیں تھیں، وقت بدلا کیسٹیوں کا زمانہ گیا اور ان کی جگہ سی ڈیز نے لے لی، بعد میں سی ڈیز کا کاروبار بھی نہ چلنے کی صورت میں یہاں جوتے، کپڑے، جیولری اور دیگر دکانیں کھل گئیں۔

اس مارکیٹ کو سستا ترین تصور کرنے کے باوجود خواتین بھاو تاو ضرور کرتی ہیں۔فوٹو کریڈٹ : افراح امام

یہاں خریداری کے لیے آنے والوں کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔جنھیں یہ اطمینان یہاں لے آتا ہے کہ اوپر مرکزی بازار کے مقابلے میں یہاں وہی مصنوعات سستی اور ورائٹی میں دستیاب ہیں۔

یہاں کی ایک خریدار مسز شاہین پروین نے بتایا کہ انھیں یہاں سے شاپنگ کرتے ہوئے 20 سال ہو چکے ہیں، وہ یہاں سے نہ صرف اپنے لیے شاپنگ کرتی ہیں بلکہ دوسروں کو دینے کے لیے تحائف بھی یہیں سے خریدتی ہیں۔

محمد توفیق عرف ماموں خواتین کے پرس اور بیگوں کی دکان چلاتے ہیں۔انھوں نے اس مارکیٹ میں خواتین کے رش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک وقت میں یہاں ہزار سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں ،کسی حادثے کی صورت میں یہاں ایمرجنسی میں کوئی انتظام نہیں ہے۔آمد و رفت کے صرف چار راستے ہیں۔

دکانداروں کے خیال میں اس مارکیٹ کو بناتے ہوئے یہاں سے گزرنے والوں یا گاہکوں کی اتنی بڑی تعداد کی امید نہیں رکھی گئی ہوگی تبھی اس مارکیٹ میں انتظامی امور انتہائی ناکافی ہیں۔

دکانداروں کا کہنا ہے کہ اس مارکیٹ میں تہواروں پر رش بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔فوٹو کریڈٹ : افراح امام

سب وے مارکیٹ ، رضویہ گولیمار

سب وے مارکیٹ رضویہ گولیمار، لیاقت آباد سب وے مارکیٹ ہی کی طرز پر زیر زمین بازار ہے یہاں بھی پہلے کیسٹوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں جو متروک ہونے کے بعد یہاں مختلف نوعیت کی دکانیں کھل گئیں۔

گولیمار کے مرکزی بازار کے ساتھ ہی گرین لائن کی جدید تعمیرات کے نیچے یہ مارکیٹ موجود ہے ، جس کے وجود سے وہاں کے مقامی لوگ بھی ناآشنا معلوم ہوتے ہیں۔

یہاں بھی تاریخ دکانداروں کی زبانی ہی معلوم ہو سکی۔ اس بازار کا حال لیاقت آباد کے بازار کے بالکل بر عکس ہے۔کل 20 دکانوں میں سے چند دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور ان میں درزی ، پلاسٹک کے برتن اور پتھروں کا کاروبار ہو رہا ہے۔

سیڑھیاں اترتے ہی ویرانی کا تاثر گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ کھلی ہوئی دکانوں میں دکاندار خاموشی سے بیٹھے ہوئے گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

زیر زمین مارکیٹ رضویہ کے وجود سے صرف پرانے لوگ ہی آشنا ہیں۔فوٹو کریڈٹ : افراح امام
مارکیٹ میں کاروبار کے اچھے دنوں میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی کیمرے بھی لگوا رکھے تھے۔ فوٹو کریڈٹ : افراح امام
مارکیٹ میں صرف چند دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔فوٹو کریڈٹ : افراح امام

بشیر صاحب یہاں برتنوں کی دکان چلاتے ہیں ان کےمطابق یہاں لوگ ویرانی کو دیکھتے ہوئے اس کا استعمال سڑک پار کرنے کے لیے بھی نہیں کرتے۔آس پاس کے لوگ جنھیں اس مارکیٹ کے بارے میں پتا ہے وہ لوگ یہاں سے کبھی کبھار کچن کی ضرورت کے برتن خریدنے آجاتے ہیں۔

مارکیٹ میں کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔فوٹو کریڈٹ: افراح امام
جدید گرین لائن منصوبے کی تعمیر کے نیچے زیر زمین مارکیٹ موجود ہے۔فوٹو کریڈٹ : افراح امام

سب وےمارکیٹ ، صدر

دکانداروں کی زبانی تاریخ کے مطابق کراچی میں بننے والی زیر زمین یہ پہلی مارکیٹ تھی۔جسے کے ایم سی نے لوگوں کو سڑک پار کرنے کی آسانی کے لیے بنایا تھا لیکن لوگ ویرانی کو دیکھتے ہوئے اس سے گزرنے کی بجائے سڑک اوپر سے پار کر لیتے تھے۔

اس حوالے سے دو بیانات سننے کے ملے۔کچھ دکانداروں کا کہنا تھا کہ یہ پہلے صرف ایک گزر گاہ تھی دکانیں بعد میں بنائی گئی تھیں جب کہ دیگر دکانداروں کا ماننا یہ ہے کہ گزرگاہ اور دکانیں ایک ساتھ ہی بنائی گئی تھیں۔

صدر جی پی او کی مصروف ترین سڑک کے شروع ہی میں اس مارکیٹ میں اترنے والی سیڑھیاں موجود ہیں۔ قدرے تنگ سیڑھیاں تاریکی، بے رونقی اور گندگی کی وجہ سے پہلی نظر میں ناقابل استعمال لگتی ہیں۔

— فوٹوز: افراح امام

چند سیڑھیاں اترنے کے بعد روشن اور صاف ستھری دکانوں پر نظر پڑتی ہے۔ تعداد میں یہ دکانیں صرف دس ہیں۔ یہاں بھی ابتدائی طور کیسٹوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔بعد میں کیسٹوں کی مانگ آہستہ آہستہ کم ہونے کے بعد ختم ہونے کہ وجہ سے یہاں تحفے اور انعامات میں دیے جانے والی اشیا کی دکانیں کھل گئیں جہاں پر آرڈر پر اشیا تیار کی جاتی ہیں۔

ارباب خان دس سال سے تحائف کی دکان پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس مارکیٹ کو بنے ہوئے 40 سال کے قریب ہو چکے ہیں۔ مارکیٹ کا نام اور سنگ بنیاد کی نشانی کہیں بھی موجود نہیں ہے۔

ایک اور دکاندار تصور حبیب نے بتایا کہ یہاں عام گاہک نہیں آتا۔ سڑک پار کرنے کے لیے لوگ اب بازار کا استعمال نہیں کرتے کیونکہ اوپر سے سڑک اتنی چوڑی نہیں ہے کہ اسے پار کرنے میں دشواری ہو۔

مارکیٹ میں ٘مخصوص مصنوعات کی دکانیں ہونے کی وجہ سے عام گاہک یہاں کا رخ نہیں کرتے۔فوٹو کریڈٹ: افراح امام 
مارکیٹ میں ٘مخصوص مصنوعات کی دکانیں ہونے کی وجہ سے عام گاہک یہاں کا رخ نہیں کرتے۔فوٹوکریڈٹ: افراح امام 

دکانداروں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس مارکیٹ کی تزئین و آرائش کروائی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متوجہ کیا جاسکے۔

صدر کی زیر زمین مارکیٹ پہلی نظر میں ویران لگتی ہے ۔فوٹو: افراح امام

کہتے ہیں کہ کسی بھی شہر اور انسان کو مکمل طور پر جان لینے کا دعویٰ غلط ہی ثابت ہوتا ہے۔ جیسے زیر زمین یہ مارکیٹیں/بازار جن سے ایک بڑی تعداد میں لوگ بے خبر تھے۔ اب آپ کا بھی کہیں ان جگہوں سے گزر ہو تو ایک دفعہ رک کر ان میں اتر کر دیکھنے کا تجربہ بھی کریں۔