پاکستان
Time 19 فروری ، 2019

بیشتر ججز فیصلے تو لکھتے ہیں لیکن انہیں انگریزی نہیں آتی: سابق چیف جسٹس


سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کہتے ہیں کہ بیشتر جج صاحبان فیصلے انگریزی میں لکھتے ہیں لیکن انہیں انگریزی نہیں آتی۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ جو لاہور میں بیدیاں روڈ پر ٹھیٹر گاؤں میں قائم ہر سکھ اسکول میں بچوں کو انگریزی پڑھا رہے ہیں۔

اس اسکول میں ان کی اہلیہ بھی بچوں کو پڑھاتی ہیں اور ان کے نواسے اور نواسیاں بھی اسی اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالتوں میں قومی زبان لکھی اور بولی جائے تو ملزمان کو پتہ چل سکے گا کہ عدالت میں ان سے متعلق کیا باتیں ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جج آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں، آئین میں تو ذکر ہی قومی و صوبائی زبانوں کا ہے، اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے۔

جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جب آئین اجازت نہیں دیتا تو جج صاحبان انگریزی میں فیصلہ کیوں لکھتے ہیں۔

جواد ایس خواجہ اپنے اسکول میں ایک بچی کی کاپی چیک کر رہے ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز 

انہوں نے کہا کہ بیشتر عدالتوں میں اردو کی جگہ انگریزی زبان استعمال ہوتی ہے، ملزمان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وکلاء اور جج صاحبان اُن سے متعلق کیا گفتگو کرتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیشتر ججز انگریزی میں فیصلے لکھتے ہیں لیکن انہیں انگریزی نہیں آتی۔

تعلیمی پالیسی کے حوالے سے جواد ایس خواجہ نے کہا پاکستان میں بے شمار کمیشن بنے، حکومت خود دیکھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر تعلیم کسی کو انسان نہیں بناتی تو وہ تعلیم نہیں ہے۔

جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس 8 ستمبر 2015ء کو آئین کے تحت قومی زبان اردو کو ہر جگہ بطور سرکاری زبان اپنانے کا حکم دیا تھا، اس حکم پر عمل درآمد ہو جائے تو زبان کے حوالے سے درپیش مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

مزید خبریں :