پی ایس ایل کی شان لاہور قلندرز

لاہور قلندرز پلیئرز ڈویلپمنٹ پروگرام کے ذریعے بہت سے نئے کھلاڑیوں کو متعارف کرایا۔ فوٹو: قلندرز

مسلسل چوتھے سال پی ایس ایل میلہ متحدہ عرب امارات میں سج چکا ہے۔ اس سال تماشائیوں سے گراونڈ کچھ سونے ہیں لیکن جیو سوپر اور دیگر نیٹ ورکس کے ذریعے اس ٹورنامنٹ کی کوریج دنیا میں دیکھی جاسکتی ہے۔

کراچی اور لاہوراس سال آٹھ میچوں کی میزبانی کررہے ہیں۔ امارات کے برعکس پاکستان میں تماشائی پُرجوش ہیں اور کئی بڑے کھلاڑی پاکستان آنے کو تیار ہیں۔ کراچی میں فائنل ہوگا۔کراچی پانچ اور لاہور تین میچوں کی میزبانی کررہا ہے۔پاکستان سپر لیگ، تین سال میں پاکستان کرکٹ کا بڑا برانڈ بن کر سامنے آیا ہے۔

آئی پی ایل کے بعد پی ایس ایل دنیا کی سب سے کامیاب لیگ ہے۔ پاکستان سپر لیگ ہر سال چار سے پانچ ہفتے تک ہوتی ہے لیکن اس ٹورنامنٹ کی ایک فرنچائز ایسی ہے جس نے پورے سال پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کے ذریعے اپنے آپ کو مصروف رکھا ہوا ہے اور کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنے آپ کو منوایا ہے۔

لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ کے وہ ٹیم ہے جس نے ابتدائی تین سال آخری نمبر حاصل کیا۔ اس بار لاہور قلندرز اسی مشن کے ساتھ پاکستان سپر لیگ میں شرکت کررہی ہے کہ جیت ہار سے قطع نظر ٹورنامنٹ کے ذریعے پاکستان کے امیج کو بڑھایا جائے۔

لاہور قلندرز کے سی ای او رانا عاطف اپنے قریبی لوگوں میں مسٹر نو پرابلم کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ رانا عاطف کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم کی کارکردگی کسی بھیانک خواب سے کم نہیں رہی۔

یاد رہے کہ لاہور قلندر کی ٹیم مسلسل تیسرے سال پاکستان سپر لیگ میں سب سے آخری نمبر پر آئی ہے۔

رانا عاطف کہنا ہے کہ یہ کارکردگی نہ صرف ان کی بلکہ پورے ملک کی توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ سارا سال محنت کی ۔ لیّہ سے لے کر کشمیر تک جا کر ٹیلنٹ تلاش کیا، ان کا کیمپ لگایا۔ ان کرکٹرز کو آسٹریلیا بھیجا۔ انضمام الحق اور شعیب اختر کو کیمپ میں بلایا جبکہ عاقب جاوید جیسے تجربہ کار کوچ کو بھی تعینات کیا۔

پی ایس ایل میں خراب کارکردگی کے باوجود ہم نے جیو کی مدد سے 365 دن اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اپنے مشن کی تکمیل کی۔

رانا عاطف کہتے ہیں کہ تین سال میں ہم نے اپنی جیب سے 30 لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی۔ لاہور قلندرز نے پی ایس ایل کو بڑا برانڈ بنانے کی کوشش کی۔

لاہور قلندرز کے مالک اے بی ڈویلیئرز کی سالگرہ منا رہے ہیں۔ فوٹو: قلندرز

جیو اور لاہور قلندرز کے اشتراک سے ہم نے ایسے کام کئے جس کی دوسری فرنچائزوں نے تقلید کی۔کٹ لانچنگ، انتھیم لانچنگ ہمارے ہی آئیڈیاز تھے۔ لاہور قلندرز کی اکیڈمی نے پورے سال کام کیا۔

رانا عاطف کہتے ہیں کہ ہم نے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کے ذریعے ٹیموں کو آسٹریلیا بھیجا۔ گلگت بلتستان، کشمیر، کے پی کے اور پنجاب میں ہمارے ٹرائلز میں پانچ لاکھ بچوں نے شرکت کی۔

ہم نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ اگلےسال ہمارا یہ پروگرام سندھ اور بلوچستان میں بھی جائے گا۔کرکٹ سے ہماری محبت ہی ہے کہ ہم نے کرکٹ سے متعلق اہم معاملات ٹیم انتظامیہ پر چھوڑ رکھے ہیں اور کبھی بھی ان میں مداخلت نہیں کی ہے۔

اس فرنچائز کرکٹ میں آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا ضابطہ اخلاق موجود ہے کہ ٹیم مالکان ٹیم میٹنگز میں شامل نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کی ٹیم کے کھلاڑیوں کے کمروں تک رسائی ہوتی ہے، لہذا وہ مالک ہونے کے ناتے اس پر عمل کرتے ہیں۔

وہ ٹیم میٹنگز کا حصہ نہیں ہوتے کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو جس کا کام ہے وہ اسی کو ساجھے۔

لاہور قلندرز کے مالک رانا فواد پی ایس ایل ٹرافی اٹھائے کھڑے ہیں۔ فوٹو: قلندرز

رانا عاطف لاہور قلندرز کی مایوس کن کارکردگی پر کسی پر انگلی اٹھا کر الزام عائد کرنا نہیں چاہتے۔ یہ ان کے مزاج میں شامل نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ٹیم اچھا کھیلنے میں ناکام رہی ہے لیکن وہ مایوس نہیں ہیں۔

انہوں نے ٹیم کی ٹورنامنٹ میں خراب کارکردگی پر اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ ٹیم میں اندرونی اختلافات ہیں۔ جب برینڈن کپتان تھے تو ہر کوئی کپتان برینڈن مکلم پر اعتماد کرتا ہے کیونکہ وہ بہت بڑے کرکٹر ہیں اور ان کی ٹیم کے ساتھ وابستگی اور لگاؤ سے کسی کو بھی انکار نہیں۔

عمر اکمل کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹیم سے الگ نہیں کیا گیا۔ عمراکمل کی کارکردگی کو وہ اس انداز سے دیکھتے ہیں کہ وہ آؤٹ آف فارم تھے لہٰذا وہ عمر اکمل پر کبھی بھی تنقید یا الزام عائد نہیں کریں گے۔

عمراکمل کو بینچ پر بٹھا کر ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی تھی اسی لیے انہیں میدان میں نہیں لایا گیا۔ 

رانا عاطف کا کہنا ہے وہ زندہ دلانِ لاہور کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اپنے احساسات چھپانے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ خود کو لاہور قلندر کا مالک نہیں بلکہ پرستار سمجھتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ میدان میں کرتے ہیں اس کا مقصد ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔

رانا عاطف کا کہنا ہے کہ لاہور قلندرز نےپاکستان کرکٹ کو فخر زمان اور شاہین شاہ آفریدی جیسے کھلاڑی دیئے۔ پی ڈی پی سے محمد عرفان جونیئر، عثمان قادر، سلمان ارشاد، سہیل اختر، حارث روؤف، سیف بدر، غلام مدثر اور روحیل اصغر جیسے کھلاڑیوں کو منظر عام پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

مجھے امید ہے کہ تین چار سال میں پاکستانی ٹی ٹوئینٹی ٹیم میں کھلاڑیوں کا بڑا حصہ قلندرز کے کھلاڑیوں کا ہوگا۔ 

اس مشن کی تکمیل میں ہم نے پاکستانی معیشیت کو مضبوط کیا۔ پی ڈی پی کے دوران ملک کے جس علاقے میں گئے وہاں کی معیشیت میں یقینی بہتری آئی ہوگی۔

رانا عاطف نے کہا کہ گزشتہ سال پردیسی کے نام سے بیرون ملک مقیم پاکستانی کھلاڑیوں کی ٹیم تیار کی اب منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ اگلے سال ڈربن اور نیپال جاکر ٹیمیں بنائیں گے اور ان ٹیموں کو پاکستان بلاکر میچ کر ائیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارا کام محنت کرنا ہے۔آخری نمبر پر آکر بھی مایوس نہیں ہیں۔

لاہور قلندرز کے کھلاڑی پریکٹس میں مصروف ہیں۔ فوٹو: قلندرز

ٹیم کے مالک رانا فواد کا کہنا ہے کہ جب میرے بھائی نے ٹیم کا نام قلندرز تجویز کیا تو مجھے اس میں اپنی والدہ کی یاد محسوس ہوئی۔ پھر میں نے اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا، انہوں نے قلندر کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برصغیر میں لاہور اور دہلی دو ایسے شہر ہیں جہاں بادشاہوں صوفیاؤں اور اولیائے کرام کا گزر ہوا ہے۔اس میں کنیزوں کا بھی ذکر ہے اور غلاموں کا بھی۔ یہ سب کچھ میں لکھتا رہا اور گنگناتا رہا اسی کوشش میں لاہور قلندرز کا گانا لکھ دیا۔ میں کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرتا ہوں اور جب میچ ہوتے ہیں تو ان میں محو ہوجاتا ہوں۔

مجھے کسی نے بتایا کہ آپ کے بارے میں کمنٹیٹرز یہ کہتے ہیں کہ فواد رانا کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ مالک کی حیثیت سے کس طرح کا انداز اختیار کیا جانا چاہیے تو یہ بات درست ہے کہ میں یہ بات بھول جاتا ہوں کہ میں کسی ٹیم کا مالک ہوں۔ میری ٹیم مجھ سے کہتی ہے کہ جب آپ خوشی سے ناچتے گاتے ہیں تو ہمیں بھی خوشی ہوتی ہے اور حوصلہ بڑھتا ہے۔

پاکستان سپر لیگ میں اس بار بھی چھ ٹیمیں حصہ لیں گی لیکن شائقین کرکٹ میں سب سے مقبول ٹیم لاہور قلندرز کے پرستار سمجھتے ہیں کہ اس ٹیم کا برا وقت گزر گیا ہے اور یہ ٹیم اب بلندیوں کی جانب گامزن ہوگی۔

پاکستان سپر لیگ کا جوش وخروش جتنا میدان میں کھلاڑیوں کے درمیان ہے اس سے کہیں زیادہ میدان سے باہر ان ٹیموں کے شائقین میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ یہی جنون اس ٹورنامنٹ کی مقبولیت کی وجہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔