01 مارچ ، 2019
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کردیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں وفاق، نیب، جج احتساب عدالت اور سپرنٹنڈنٹ کوٹ لکھپت جیل کو فریق بنایا گیا ہے۔
خواجہ حارث نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے ضمانت کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا اور خود ہی فرض کرلیا کہ نوازشریف کو اسپتال میں علاج کی سہولیات میسر ہیں جب کہ درحقیقت نواز شریف کو درکار علاج بھی شروع نہیں ہوا۔
درخواست میں کہا گیا ہےکہ نوازشریف کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں، ان کے میڈیکل بورڈ کے ذریعے کئی ٹیسٹ کروائے گئے، انہیں انجائنا، دل، شوگر، ہائپرٹینشن اور گردوں کے امراض لاحق ہیں جب کہ ان کی انجیوگرافی بھی ہونا لازمی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نوازشریف کو فوری علاج کی ضرورت ہے، اگر علاج نہ کیا گیا تو ان کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے لہٰذا ہائیکورٹ کا 25 فروری کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ 25 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی اور ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر اور عدالتی کارروائی:
سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کو سنائے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیا گیا اور عدالت عظمیٰ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔
8 ستمبر 2017 کو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے۔
احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔
احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید اور فیلگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کیا۔